زرعی زمین فوج کو الاٹ کرنے پہ لاہور ہائی کورٹ کا دعوتِ فکر دینے والے فیصلے کا لب لباب یہ ہے:
پنجاب میں سابقہ حکومت جو کہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی یہ اسی حکومت کا ایک منصوبہ تھا کہ بنجر زمین کو کسی طرح زراعت کے کام میں لایا جاسکے اور وہ حکومت یہ کام سی پیک کے حصے کے طور پر کرنا چاہ رہی تھی۔ اس منصوبے کے لیے سابقہ حکومت نے پوری یکسوئی سے کام لیا اور اس پہ بہت سارا ہوم ورک کیا اور اس کے بعد اسے قدم بہ قدم آگے لے کر چلی مگر سابقہ حکومت کو اس کام کو کرنے میں کوئی عجلت نہ تھی کیوں کہ یہ عجلت والا کام تھا ہی نہیں۔ سابقہ حکومت نے اس منصوبے میں شرط رکھی تھی کہ یہ منصوبہ open bidding کے زریعے کسی ایک کمپنی یا بہت سی کمپنیوں کو ملے گا۔
اس کے بعد آتا ہے نگران حکومت کا دور۔ نگران حکومت نے اس منصوبے کو راتوں رات سرعت کے ساتھ آگے بڑھانا شروع کیا اور اس کے بہت سی شرائط بھی تبدیل کر دیں جو اس پورے منصوبے کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں نگران حکومت نے یہ شرط بھی تبدیل کر دی کہ یہ زمین کسی کمپنی کو open bidding کے زریعے الاٹ ہوگی۔ اتنے میں فوج نے وفاقی حکومت کے اجازت کے بغیر ہی نگران حکومت کو ڈائرکٹ اپروچ کیا اور درخواست کی کہ مذکورہ منصوبہ انہیں کے حوالے کیا جائے اور پھر راتوں رات یہی ہوا کہ لاکھوں ایکڑ زمین فوج کو الاٹ ہوگئی۔
اس پہ عدالت نے مزید لکھا کہ جو منصوبہ عجلت طلب نہ تھا بلکہ اس کو بہت پھونک پھونک کر آگے بڑھانا تھا وہی منصوبہ عبوری حکومت نے بہت ہی عجلت کے ساتھ آگے بڑھایا پھر اس کی شرائط ایسی تبدیل کر کے رکھ دی کہ وہ ایک منتخب حکومت کا منصوبہ نہیں رہا بلکہ نیا لگنے لگا اس کے بعد یہ منصوبہ قانون اور آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ادارے یعنی فوج کو الاٹ کر دی گئی۔ عدالت نے عبوری حکومت کی ہیئت اور قانونی حیثیت بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے عدالت نے کہا ہے کہ عبوری حکومت ایسا کوئی بھی فیصلہ کن اقدام نہیں اٹھا سکتی جو آنے والے منتخب حکومت اس سے قانونی طور پر پیچھے نہ ہٹ سکے اور وہ اس پر لازم ہو جاے بالفاظ دیگر عدالت نے کہا کہ عبوری حکومت صرف درمیانے عرصے کے لیے آتی ہے اور اس کا کام انتخابات میں غیر جانبداری کے سات الیکشن کمیشن کی مدد کرنا اور درمیانے عرصے کے عام روٹین کی نظم و نسق جو سنھبالنا ہے اور بس۔ متعلقہ فیصلہ کہ لاکھوں زمین ایک ادارے کو دے دی گئی اس عبوری حکومت کا اختیار ہر گز نہیں۔
اس پہ عدالت نے مزید کہا کہ فوج کا زراعت میں کوئی مہارت نہیں ہے وہ کیسے یہ کام سر انجام دے سکتی ہے۔ پھر عدالت نے فوج کا بطور ادارہ جائزہ لیا ہے
دستور کے شو نمبر 245 اور دیگر متعلقہ شقوں جا باقاعدہ حوالہ دے کر عدالت نے وضاحت کی ہے کہ فوج کا واحد مقصد اور کام صرف صرف سرحدوں کی رکھوالی کرنی ہے اور ملک کو اندرونی و بیرونی سازشوں اور جارحیت سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس کے علاؤہ فوج کا بطور ادارہ کوئی کام نہیں کہ وہ کمرشل سرگرمیوں میں خود کو ملوث کرے۔
عدالت نے مزید یہ کہا کہ فوج کا ہر ہر فرد ایک مخصوص قانون جس کا نام ہے آرمی ایکٹ کے تحت آتا ہے اور اس کے خلاف اسی قانون کے تحت ہی کاروائی ہو سکتی ہے۔ کسی فوجی کو کسی سویلین قانون کے تحت ڈیل نہیں کیا جاسکتا۔ فوج کا بطور ادارہ اپنا ایک قانونی نظام ہے اور اس ادارے کا اپنا ایک مخصوص نظم ہے جس کے تحت یہ چلتا ہے۔ فوج کے ہر ہر سپاہی کو اس مخصوص نظم اور قانون پہ فخر کرنا چاہیے۔ اسی بنیاد پہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فوج سویلین سے بلکل ہی الگ تھلگ اور ایک علیحدہ ادارہ ہے جو کسی بھی سویلین کام کو جس میں عام سویلین سے واسطہ پڑتا ہو یا کسی سویلین ادارے کا کام ہو فوج کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔
عدالت نے آخر میں بہت ہی فکر مند، حکیمانہ اور داعیانہ انداز میں فوج کے شعور کو جگانے کی کوشش کی ہے اور اسے اس کا آئینی و قانونی کردار اور حدود یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔
عدالت نے یہ بہت ہی وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ فوج بطور ادارہ کسی کمرشل سرگرمی کے لیے نہیں بنا اور نا ہی آئین و قانون اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ لہذا فوج کوئی بھی کمرشل سرگرمی سر انجام نہیں دے سکتی۔
آخر میں عدالت نے یہ فیصلہ متعلقہ حکومت، چیف آف آرمی سٹاف،جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، چیف آف نیوی اور چیف ائر فورس کو بھجوانے کی ھدایت بھی کی ہے۔
اب اس کے بعد کل ہی موجودہ حکومت نے زرعی زمینوں کو فوج کے ہاتھوں میں باقاعدہ دینے کی تقریب منعقد کی ہے اور فوج کو ماورائے آئین ایک کمرشل سرگرمی میں ملوث کیا ہے
عدالت جس چیز کو غیر قانونی قرار دے حکومت اسے باقاعدہ قانونی بنا کر اسٹبلشمنٹ کو تھما دیتی ہے۔ ایسے میں حل کیا ہے یہ عوام نے سوچنا ہے۔
نوٹ یہ فیصلہ 134 صفحات کا ہے جو کہ کافی طویل ہے۔ اس میں بہت ساری تفصیل ہے اور عدالت نے دیگر۔ ہر سارے اہم ترین سوالات کو بیج زیر بحث لایا ہے سبھی کو یہاں ذکر کرنا میرے لیے ممکن نہیں تھا اس لیے تفصیل کے لیے ججمنٹ پڑھیے۔
W. P. No. 20906 / 2023
Public Interest Law Association of Pakistan
Versus
Federation of Pakistan & 08 others
No comments:
Post a Comment