Sunday, July 9, 2023

ذرے میں کائنات -سائنس

_*سائنس*_

_*(قسط 6: ذرے میں کائنات)*_
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے آپ کسی دوسرے شہر شفٹ ہو رہے ہیں اور مسئلہ گھر کے تمام سامان کو شفٹ کرنے کا ہے۔۔۔۔۔ ایسے میں کوئی آپ کو پیش کش کرے کہ اس کے پاس ایک ایسی خالی ماچس کی ڈبیا ہے، جس میں آپ گھر کا تمام سامان بلکہ گھر کی پوری بلڈنگ ڈال کر لے جا سکتے ہیں۔ تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟؟؟ کیا آپ اس شخص کو ہوش مند سمجھیں گے؟؟

کائنات کا آغاز اس سے بھی کئی گنا ناقابلِ یقین انداز میں ہوا۔ تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پہلے یہ ایٹم سے بھی بہت چھوٹے ذرے جیسے نقطے سے شروع ہوئی اور چشمِ زدن میں وسعتوں کے جہاں میں تبدیل ہو نا شروع ہو گئی۔ اسی نقطے میں تمام ستارے، کہکشائیں، کواسرز، سپر کلسٹرز اور آپ کی یہ زمین، یہ چاند اور سورج کا سب مادہ اور توانائی سمٹے ہوئے تھے۔ 

ابتداء میں جو مادہ بنا اس میں منظم ایٹم یا مالیکیولز نہیں تھے بلکہ وہ پارٹیکلز (ذرات) تھے، جن سے بعد میں ایٹم تشکیل پائے۔ فی الحال ہمارا موضوع یہ ذیلی ایٹمی ذرات (Sub-atomic particles) نہیں ہیں۔ ان پر ہم آئندہ کسی مضمون میں بات کریں گے۔ 

ہمارا آج کا موضوع ایٹم (Atom) ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مادے کی موجودگی نے انسان کو صدیوں سے تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ مادے کی حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک اور سوال سے جڑا ہے؛ اور وہ یہ کہ مادہ بنا کس شے سے ہے؟

یونانی مفکرین نے مادے کے ترکیبی اجزاء آگ، ہوا، پانی اور مٹی قرار دئے، مگر اصل سوال اب بھی برقرار تھا کہ یہ آگ، ہوا، مٹی اور پانی کس شے سے بنے ہیں۔ 

ایسے میں ہمارے سامنے "ایٹوموس"  (Atomos) کا تصور آتا ہے۔ اس تصور کا بانی ڈیموکریٹس (370 ق م) کو سمجھا جاتا ہے لیکن اس نے اس کا تصور اپنے استاد لیوسی پس سے لیا۔ 

اس نے کہا کہ ہر قسم کا مادہ چھوٹے چھوٹے غیر مرئی، ناقابلِ تقسیم ذرات پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں ایٹوموس کہا جا سکتا ہے۔ لفظ ایٹوموس کا مطلب ہی ناقابلِ تقسیم ہے۔ بعد میں یہی لفظ ایٹم بنا۔

اٹھارویں صدی عیسوی کے اختتام تک ایٹم کے بارے میں مختلف افکار اور تصورات پیش کئے جاتے رہے۔ ان افکار کا تعلق سائنس سے زیادہ فلسفے سے تھا۔

مادے کی تین حالتیں یعنی ٹھوس، مائع اور گیس ایٹموں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ ایٹم باہم مل کر مالیکیول بناتے ہیں۔

🔹ڈالٹن کا ایٹمی ماڈل:🔹

سن 1808 میں سر جان ڈالٹن نے باضابطہ طور پر پہلا ایٹمی ماڈل پیش کیا۔ اس ماڈل کے بنیادی نکات یہ ہیں۔

1۔ ہر قسم کا مادہ، چھوٹے چھوٹے ذرات یعنی ایٹموں سے بنا ہے۔ یہ ایٹم ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ فنا ہیں۔ یعنی ایٹموں کو مزید توڑنا ممکن نہیں اور نہ ہی ان کے اندر مزید ذیلی ذرات ہوتے ہیں۔

2۔ ایک عنصر (Element) کے تمام ایٹم اپنی کمیت اور دیگر خواص میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثلاً سونا یا چاندی یا کاربن وغیرہ۔

دوسرے لفظوں میں، جس مادے کے تمام ایٹم ایک جیسے اور ایک ہی قسم کے ہوں اسے عنصر کہا جائے گا۔

3۔ ایسے مادے جو دو یا زائد قسم کے ایٹموں کے باہم ملاپ سے تشکیل پائیں، مرکبات (Compounds) کہلاتے ہیں۔ چنانچہ پانی مرکب ہے، کیونکہ اس میں ہائڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں کا ملاپ عمل میں آتا ہے۔

4۔ ایک کیمیائی ری ایکشن، دراصل ایٹموں کی از سرِ نو ترتیب (rearrangement) ہے۔

اس ماڈل کے پہلے نکتے کے علاوہ باقی تمام نکات آج بھی درست ہیں۔ بعد کے سائنسدانوں کی زیادہ تر تحقیقات پہلے نکتے کے گرد گھومتی رہیں۔ یہ نقطہ جلد ہی غلط ثابت ہو گیا۔ اور ایٹم کے اندر مزید ذرات الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران دریافت ہوئے۔ علاوہ ازیں ایٹم کو نیوکلئیر ری ایکشنز کی مدد سے تباہ کرنا بھی ممکن ہو گیا۔

🔹الیکٹران کی دریافت🔹

سر جان ڈالٹن کے ماڈل کے فوراً بعد ایٹم کی اندرونی ساخت جاننے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا۔ اس سلسلے میں کانچ کی بنی ہوئی ایسی ڈسچارج ٹیوب بنائی گئی جسے ہوا سے خالی کیا گیا اور اس میں سے برقی کرنٹ گزارا گیا۔ 

اس پر پہلا تجربہ سن 1838 میں مائکل فیراڈے نے کیا۔ اس نے چمکدار شعاعوں کا مشاہدہ تو کیا، مگر وہ اس کی وضاحت نہ کر سکا کہ یہ کیسی شعاعیں ہیں۔ 

سن 1857 میں جرمن سائنسدان گیزلر نے ڈسچارج ٹیوب کا ڈیزائن مزید بہتر کیا۔

 1874 میں ولیم کروکس نے ان شعاعوں کو کیتھوڈ ریز کا نام دیا اور ثابت کیا کہ یہ شعاعیں منفی الیکٹروڈ یعنی کیتھوڈ سے خارج ہوتی ہیں۔

جے جے تھامسن وہ سائنسدان تھا جس نے کئی تجربات کرنے کے بعد قرار دیا کہ کیتھوڈ ریز درحقیقت ننھے ننھے ذرات ہیں، جن پر منفی چارج ہوتا ہے اور ان کی اپنی کمیت ہوتی ہے۔ ان ذرات کو الیکٹران کہا گیا۔ یہ اتنے ہلکے ہیں کہ سب سے چھوٹے ایٹم ہائڈروجن سے بھی ان کی کمیت 1840 گنا کم ہوتی ہے۔ ہر ایٹم میں الیکٹران پائے جاتے ہیں۔ گویا ڈالٹن کا یہ مفروضہ کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے، غلط ثابت ہو گیا۔

🔹تھامسن کا ایٹمی ماڈل🔹

الیکٹران کی دریافت کے بعد، منطقی طور پر ایٹم کے بقیہ حصے کو مثبت چارج کا حامل قرار دیا گیا۔ جے جے تھامسن نے نیا ماڈل پیش کیا، جسے پلم پڈنگ ماڈل (Plum pudding model) کا نام دیا گیا۔ اس کے مطابق:

1۔ ایٹم قابلِ تقسیم ہے۔

2۔ اس کی بیشتر کمیت مثبت چارج والے ذرات پر مشتمل ہے۔

3۔ الیکٹران اس مثبت چارج کے اندر ساکن حالت میں بکھرے ہوتے ہیں، جیسا کہ فروٹ کیک میں کشمش وغیرہ بکھری ہوتی ہے۔

3۔ ایٹم کا مثبت اور منفی چارج مساوی ہوتا ہے۔

🔹ردر فورڈ کا ایٹمی ماڈل🔹

ارنسٹ ردر فورڈ (Earnst Rutherford) جو کہ جے جے تھامسن کا شاگرد تھا، نے تھامسن کے ماڈل کو غلط ثابت کر دیا۔ 

سن 1909 میں اس نے سونے کے باریک ورق پر الفا ذرات کی بمباری کرتے ہوئے ثابت کیا کہ؛ 

1۔ ایٹم کا زیادہ تر حجم اندر سے خالی ہوتا ہے۔

2۔ ایٹم کا تمام مثبت چارج اور بیشتر کمیت اس کے مرکز میں موجود ایک جسم، نیوکلئس (Nucleus) میں مرتکز ہوتی ہے۔ 

(بعد میں ثابت ہوا کہ نیوکلس میں دو ایٹمی ذرات پروٹان اور نیوٹران پائے جاتے ہیں۔ پروٹان پر مثبت چارج اور نیوٹران پر کوئی چارج نہیں ہوتا)

3۔ تمام الیکٹران اس نیوکلئس کے گرد اسی طرح لگاتار گردش کر رہے ہوتے ہیں جیسے سورج کے گرد سیارے۔

🔹ردرفورڈ کے ماڈل کی خامیاں🔹

ردر فورڈ کا ایٹمی ماڈل بہت حد تک درست تھا، مگر یہ دو مظاہر کی وضاحت نہیں کرتا تھا۔

1۔ ایٹم سے اخراجی اور انجذابی طیف (Spectrum) حاصل ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

( اسپیکٹرم سے مراد روشنی کی وہ دھاری ہے، جس کی مخصوص فریکوئنسی ہوتی ہے، جیسا کہ قوسِ قزح میں ہر رنگ کی دھاری الگ الگ دکھائی دیتی ہے۔)

2۔ الیکٹران گھومتے ہوئے اپنی توانائی خرچ کیوں نہیں کرتا؟ اگر اس کی توانائی خرچ ہو رہی ہے تو اسے نیوکلئس میں گر جانا چاہئے۔

🔹بوہر کا ایٹمی ماڈل🔹

ڈنمارک کے سائنسدان نیل بوہر (Neil Bohr) نے ردر فورڈ کے ماڈل کی ان خامیوں کو دور کر کے 1913 میں اپنا ایٹمی ماڈل پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کوانٹم تھیوری نے فزکس کے شعبے میں ہلچل مچا رکھی تھی۔ 

اسی تناظر میں پیش کئے گئے بوہر کے ایٹمی ماڈل کے نکات یہ ہیں۔

1۔ اگرچہ الیکٹرانز، نیوکلئس کے گرد گردش کرتے ہیں مگر نیوکلئس سے ان کی گردش کا فاصلہ طے شدہ ہوتا ہے۔ ان طے شدہ راستوں کو آربٹ کہا جاتا ہے۔ الیکٹرانز ان مقررہ آربٹ سے انحراف نہیں کرتے۔

2۔ جب تک ایک الیکٹران کسی ایک آربٹ میں گردش کرتا رہتا ہے، یہ توانائی جذب یا خارج نہیں کرتا۔

3۔ کوئی بھی الیکٹران اسی وقت توانائی جذب یا خارج کرتا ہے جب وہ کسی نچلے آربٹ سے اونچے یا اونچے سے نچلے آربٹ میں چھلانگ لگاتا ہے۔ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ اسپیکٹرم تشکیل دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment