_*سائنس*_
_*(قسط ۳: مادی کائنات)*_
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برف کا ایک ٹکڑا لے کر خالی پلیٹ میں رکھ دیں۔ یہ تھوڑی دیر تک اپنی شکل برقرار رکھے گا مگر پھر آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہو جائے گا۔ کچھ ہی ساعتوں کے بعد یہ پانی میں تبدیل ہو جائے گا اور بہہ کر پلیٹ جیسی شکل اختیار کر لے گا۔ اس پلیٹ کو ابھی اور پڑا رہنے دیں۔ چند گھنٹے یا ایک دن کے اندر یہ پانی غائب ہو جائے گا اور خشک پلیٹ ہی رہ جائے گی۔ یہ پانی کہاں چلا گیا؟ ظاہر ہے بخارات بن کر ہوا میں اڑ گیا۔
اس مثال میں پانی کی تین حالتیں (states) ہمارے سامنے آئیں۔
▪️برف یعنی ٹھوس،
▪️پانی یعنی مائع اور
▪️بخارات یعنی گیس۔
پانی مادہ (matter) ہے اور ٹھوس، مائع اور گیس اس کی تین حالتیں۔
تعریف کے مطابق، ہر وہ شے جو جگہ گھیرتی ہے اور کمیت رکھتی ہے، مادہ کہلاتی ہے۔
کیمسٹری، سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں مادے کا علم حاصل کیا جاتا ہے۔
ہماری کائنات میں چار بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔
1۔ مادہ Matter
2۔ توانائی Energy
3۔ وقت Time
4۔ خلاء Space
زیرِ نظر آرٹیکل میں ہم مادے کے بارے میں بنیادی علم حاصل کریں گے اور اگلی اقساط توانائی، وقت اور خلاء کے بارے میں ہوں گی۔
🔹مادے کی حالتیں🔹
اگرچہ عام زندگی میں ہم مادے کی تین حالتوں یعنی ٹھوس، مائع اور گیس سے ہی واقف ہیں مگر کائنات میں مادے کی کم ازکم سات یا زائد حالتیں ہیں، تاہم اس مضمون میں درج ذیل پانچ حالتوں کو زیرِ بحث لایا جائے گا۔
1۔ ٹھوس Solid
2۔ مائع Liquid
3۔ گیس Gas
4۔ پلازمہ Plasma
5۔ بوس-آئین اسٹائن کنڈنسیٹ
Bose- Einstein Condensate
1۔ ٹھوس
🔹لکڑی، شیشہ، پتھر، لوہا وغیرہ ٹھوس مادہ کی مثالیں ہیں۔
🔹یہ مادے کی ایسی حالت ہے جو اپنی شکل اور حجم برقرار رکھتی ہے۔
🔹اس کے ایٹمز، آئینز یا مالیکیولز بہت قریب قریب ہوتے ہیں اور صرف ارتعاشی حرکات ہی انجام دے سکتے ہیں۔
🔹ٹھوس کی دو بنیادی اقسام ہیں، کرسٹلائن سولڈ (crystalline solid) اور ایمارفس سولڈ (Amorphous Solid)۔
🔹کرسٹلائن سولڈ کے ایٹمز، آئینز یا مالیکیول مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ٹھوس نمک، پھٹکڑی اور دھاتیں ہیں۔
🔹ایمارفس سولڈ کے ایٹمز، آئینز یا مالیکیولز بے ترتیب حالت میں ہوتے ہیں، مثلاً پلاسٹک، کوئلہ، کنکریٹ وغیرہ۔
2۔ مائع حالت
🔹مادہ اپنی مائع حالت میں بہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پانی، اسپرٹ، مٹی کا تیل، پیٹرول، گلیسرین وغیرہ اس کی عام مثالیں ہیں۔
🔹مائع اپنا حجم برقرار رکھتا ہے مگر اس کی شکل تغیر پذیر ہوتی ہے اور اسے جس برتن میں رکھو، یہ اسی برتن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
🔹اس کے مالیکیولز اگرچہ بہت قریب ہوتے ہیں مگر یہ ارتعاشی حرکت کی بجائے بے ترتیب خطی حرکت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر پھسلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
🔹وولیٹائل (volatile) مائعات، بآسانی بخارات میں تبدیل ہو جاتے ہیں جبکہ نان وولیٹائل، بخارات میں تبدیل نہیں ہوتے۔
🔹مالیکیولوں کے درمیان کشش کی قوتیں پائی جاتی ہیں، اگرچہ یہ قوتیں ٹھوس سے کم ہوتی ہیں۔
3۔ گیس حالت
🔹آکسیجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کلورین وغیرہ عام گیسیں ہیں۔ ہوا بھی مختلف گیسوں کا آمیزہ ہے۔
🔹گیسوں کا حجم اور شکل مقررہ نہیں ہوتے، بلکہ انہیں جس برتن میں رکھو اسی برتن کا حجم اور شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
🔹گیس کے مالیکیول بہت دور دور پائے جاتے ہیں اور ان کے درمیان کشش کی قوتیں صفر کے قریب ہوتی ہیں۔
🔹گیسی مالیکیولز ہر وقت خطِ مستقیم میں لگاتار حرکت کرتے ہیں اور ان حرکات کے دوران آپس میں یا برتن کی دیواروں سے ٹکراتے رہتے ہیں۔
🔹گیس مالیکیولوں کے ٹکراؤ کے دوران توانائی یا مومینٹم کا زیاں نہیں ہوتا، جس سے ان کی حرکت کبھی نہیں رکتی۔
🔹تمام گیسیں دباؤ ڈالتی بھی ہیں اور بیرونی دباؤ کے نتیجے میں اپنا حجم کم بھی کرتی ہیں۔
4۔ پلازمہ
🔹پلازمہ، زمین پر مشکل سے ہی ملتا ہے مگر یہ کائنات میں مادے کی سب سے زیادہ عام حالت ہے۔
یہ انتہائی باردار (charged) ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔
🔹ان ذرات کی حرکی توانائی بہت شدید ہوتی ہے۔
🔹زمین پر عموماً نوبل گیسوں مثلاً ہیلئیم، نیئون، کرپٹان وغیرہ کو برقی کرنٹ کی مدد سے پلازمہ میں تبدیل کر کے جگمگ کرتے اشتہاری بورڈز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
🔹بیشتر ستارے پلازمہ کے سپر ہیٹڈ (superheated) کرے ہیں۔
5۔ بوس-آئن اسٹائن کنڈنسیٹ
1995 میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے سائنسدانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مادے کی ایک نئی حالت تشکیل دے سکیں۔
لیزر شعاعوں اور مقناطیسیت کے استعمال سے دو سائنسدانوں، ایرک کورنیل اور کارل ویمین نے ایک دھات روبیڈئیم (rubidium) کو اس قدر ٹھنڈا کیا کہ اس کا درجہ حرارت مطلق صفر تک پہنچا دیا گیا۔ یہ درجہ حرارت منفی 273 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔ اتنا کم درجہ حرارت انسانی تاریخ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ اس درجہ حرارت پر ایٹموں اور مالیکیولوں میں حرکت صفر ہو جاتی ہے اور کوئی مالیکیول اپنی حرکی توانائی دوسرے میں منتقل نہیں کر پاتا۔ جس کی بنا پر یہ تمام مالیکیول آپس میں چپکنے لگتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں تمام مالیکیولوں کی انفرادی حیثیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ اس کی بجائے یہ سب ایٹم مل کر ایک ہی بڑے سے سپر ایٹم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ حالت بوس- آئن اسٹائن کنڈنسیٹ کہلاتی ہے۔
اس میں کئی حیرت انگیز خواص پیدا ہو جاتے ہیں، مثلاً
🔹اسے میکرواسکوپک لیول پر کوانٹم مکینکس کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
🔹اس میں سے گزرنے کے دوران روشنی کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ اس سے پارٹیکل/ویو پیراڈوکس کا مطالعہ بآسانی ممکن ہو جاتا ہے۔
🔹یہ بنا رگڑ کے بہنے کی وجہ سے سپر فلوئیڈ (superfluid) کی خصوصیات کا حامل ہوجاتا ہے۔
🔹مادے کی اس حالت کو بلیک ہولز کے بہت سے مظاہر سمجھنے کے لئے بھی اہم خیال کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment