_*سائنس آسان*_
_*(قسط ۲: سائنٹیفک میتھڈز)*_
چار سو سال پہلے کا واقعہ ہے، ایک روز اٹلی کے مشہور پِیسا ٹاور کے پاس سے اس دور کے نامور سائنسدان گیلیلی گیلیلیو کا اپنے شاگردوں کے ہمراہ گزر ہوا۔ اس نے دو پتھر تلاش کئے، ایک ہلکا اور دوسرا بھاری۔ پھر اپنے شاگردوں سے پوچھنے لگا کہ اگر ہم ان دونوں پتھروں کو پیسا ٹاور سے ایک ساتھ گرائیں تو کونسا پتھر پہلے زمین پر گرے گا؟
شاگردوں نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر جواب دیا کہ ظاہر ہے بھاری پتھر پہلے گرے گا۔
گلیلیو نے کہا، کیا بہتر نہیں کہ ہم "تجربہ" کر کے دیکھ لیں؟
شاگرد زیرِ لب مسکرائے، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ یہی پڑھا تھا اور سینکڑوں سال سے یہ تسلیم شدہ حقیقت تھی کہ ہمیشہ بھاری پتھر زیادہ رفتار سے نیچے گرتا ہے۔
بالآخر تجربہ کیا گیا اور بار بار کیا گیا۔ اور ہر بار تمام شاگرد حیران ہوئے کہ دونوں پتھر ایک ساتھ زمین پر گر رہے تھے۔ (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نیوٹن کے سر پر سیب گرنے کی طرح یہ کہانی بھی فرضی ہے، ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر نہ تو اجسام کا زمین پر ایک ساتھ گرنا فرضی ہے اور نہ یہ بات کہ اس حقیقت کو سب سے پہلے گیلیلیو نے دریافت کیا۔
یقین نہ آئے تو اپنے گھر کی چھت پر جا کر دو پتھر گرا کر دیکھ لیں)
اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا تجرباتی ثبوت ہے مگر یہ بہت بڑی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے، کہ سائنسی تحقیق کس طرح کی جاتی ہے۔ اور کس طرح سائنسی مسلمات، حقائق اور نظریات دریافت ہوا کرتے ہیں۔
مستند سائنسی طریقۂ تحقیق کو سائنٹیفک میتھڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ناقابلِ تردید حقائق اور نظریات دریافت ہوتے ہیں۔
سائنٹیفک میتھڈ کے مراحل
ہر سائنسی تحقیق کے "سائنٹیفک میتھڈ" کے مراحل معمولی ردو بدل کے ساتھ کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں۔
1۔ موضوع کا انتخاب:
سائنٹیفک میتھڈ کا پہلا مرحلہ یقیناً موضوع کا انتخاب ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں سوال اٹھایا جاتا ہے، مثلاً پولیو چھوٹے بچوں کو ہی کیوں ہوتا ہے؟ سورج کی حرارت زمین تک کیسے پہنچتی ہے؟ لوہے کو زنگ کیوں لگتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
2۔ مشاہدہ Observation
یہ بہت طاقتور اسٹیپ ہے۔ اس مرحلے میں متعلقہ موضوع کے بارے میں تمام ممکنہ مشاہدات اکٹھے کر کے ہر طرح کی ریسرچ کی جاتی ہے اور تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی میدان کے خاص حصے میں گھاس زیادہ لمبی اور سر سبز ہے تو اس زمینی ٹکڑے کا مشاہدہ کیا جائے گا اور دوسرے حصوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے گا۔
3۔ مفروضہ یا ہائپوتھیسس (Hypothesis)
ہائپوتھیسس کے اردو متبادل کے لئے لفظ "مفروضہ" استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ مفروضہ سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔
یاد رکھئے، ہائپو تھیسس کوئی ایسا مفروضہ نہیں ہوتا جو کوئی بھی انسان بنا سوچے سمجھے قائم کر لے۔ بلکہ سائنسی مفروضہ کی ٹھوس بنیاد مشاہدات پر رکھی جاتی ہے اور یہ ذہانت آمیز اندازہ Intelligent guess ہوتا ہے۔
لھٰذا، ایسا بیانیہ جو مشاہدات اور ریسرچ کی بنیاد پر مکمل تفکر، تعقل اور منطق Logic کی بنیاد پر قائم کیا جائے، مفروضہ کہلاتا ہے۔ یہ مشاہدے کی عقلی توضیح کرتا ہے۔
مفروضہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو تجرباتی تصدیق کے مراحل سے ابھی نہیں گزارا گیا ہوتا، مگر یہ حقائق کے تمام امکانات کا احاطہ کرتا ہے۔
4۔ تجربات Experiments
مفروضہ کی تصدیق یا تردید کے لئے تجربات کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ سائنس میں تجربات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
عموماً تجربات میں دو قسم کے تغیر پذیر عوامل یا ویری ایبلز variables استعمال کئے جاتے ہیں۔
پہلی قسم انڈیپینڈنٹ ویری ایبلز کی اور دوسری ڈیپینڈنٹ ویری ایبلز کی ہوتی ہے۔
انڈیپینڈنٹ میں تبدیلیاں لا کر ان کے اثرات ڈیپینڈنٹ ویری ایبلز پر دیکھے جاتے ہیں اور مشاہدات کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
5۔ ڈیٹا اور اسکا تجزیہ
تجربہ کے دوران حاصل ہونے والے ڈیٹا کا پوری احتیاط سے ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور پھر اس ڈیٹا کو تجزیے کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ اس کے لئے کئی قسم کے ٹیبلز اور گراف استعمال کئے جاتے ہیں۔
تجزیہ کے بعد نتائج مرتب کئے جاتے ہیں جنہیں انستنباط یا conclusion کہا جاتا ہے۔ انہی نتائج سے فیصلہ ہوتا ہے کہ مفروضہ رد کیا جائے گا یا اسے تھیوری کا درجہ حاصل ہو گا۔
6۔ نظریہ یا تھیوری Theory
اگر ہائپوتھیسس کی تصدیق تجربے سے ہو جائے تو یہ ہائپوتھیسس، نظریہ کادرجہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس درجے تک پہنچنے کے لئے ایک تجربہ کافی نہیں ہوتا بلکہ کئی سائنسدان کئی بار تجربات کرتے ہیں۔
گویا تھیوری یا نظریہ ایک ایسا بیانیہ ہے جسے تجرباتی تصدیق حاصل ہو۔
تھیوری کے لئے کئی دیگر اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں اور یہ سب تھیوری کی ہی مترادفات ہیں۔ مثلاً
▪️فیکٹ (fact)،
▪️سائنٹیفک لاء،
▪️رول (rule) وغیرہ۔
سائنس کا فہم نہ رکھنے والے لوگ عموماً تھیوری یا نظریہ کو محض انسانی رائے سمجھ بیٹھتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ یاد رکھئے تھیوری، تصدیق شدہ فیکٹ ہوتی ہے اور ہر طرح کے تصدیقی و تجرباتی مراحل سے گزر کر مسلمہ حقیقت کا درجہ حاصل کر چکی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment