_*مغلیہ زوال 10*_
_*تلوار کی کاٹ*_
سوموار کا دن تھا۔ عیسوی کیلنڈر میں 11 مئی 1857 جبکہ ہجری کیلنڈر میں سولہ رمضان۔ دہلی میں رمضان میں شہر کی زندگی بدل جایا کرتی تھی۔ دہلی کی بدترین گرمی کا دن تھا۔ دہلی کے مسلمان خاندان سحری سویوں سے کرنا پسند کرتے تھے اور سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان لال قلعے سے توپ سے فائر کئے جانے والے گولے سے ہوا کرتا تھا۔
صبح سات بجے بہادر شاہ ظفر لاٹھی کا سہارا لئے تسبیح خانے سے دریا کا نظارہ کر رہے تھے کہ انہیں جمنا کے پاس دھواں اٹھتا نظر آیا۔ انہوں نے پالکی بردار کو آواز دی کہ وہ فٹافٹ جا کر معلوم کریں کہ ماجرا کیا ہے۔ جلد ہی خبر مل گئی کہ یہ انقلابی تھے جنہوں نے دریا پر محصول چونگی کو آگ لگا دی تھی۔ سب سے پہلے مارے جانے والوں میں چونگی لینے والے اور پھر ٹیلی گراف آفس کے مینجیر چارلس ٹوڈ تھے جو پتا لگانے اس جانب گئے تھے۔ ظفر نے حکم دیا کہ شہر کے دروازے بند کر دئے جائیں اور اگر دیر نہیں ہو گئی تو پل توڑ دیا جائے۔
لیکن پانچ سو سوار شہر کے اندر پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھیو میٹکاف کی اس روز چھ ماہ کی چھٹی شروع ہو رہی تھی جو انہوں نے کشمیر میں گزارنی تھی۔ اس روز مرنے والوں میں وہ شامل نہیں تھے۔ اور چھپ کر شہر سے بھاگ کر جان بچا لی تھی۔ فریزر، پادری جیننگز اور دو مشہور کنورٹ سمیت اس روز کسی کو نہیں بخشا گیا۔ اس بغاوت میں انگریز مسلمانوں کو نہیں چھیڑا۔ عبداللہ بیگ ایک برٹش تھے جو مسلمان ہوئے تھے، نہ صرف انہیں کچھ کہا نہیں گیا بلکہ وہ اس میں انقلابیوں کا ساتھ دیتے رہے۔ سارجنٹ میجر گورڈن، چونکہ مسلمان ہو چکے تھے، انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔
انقلابیوں کی حمایت طبقاتی بنیادوں پر بھی تھی۔ مزدور اور کپڑا ساز اس کے پرجوش حامی رہے۔ دہلی کی اشرافیہ منقسم تھی۔ عبدالطیف کا کہنا تھا کہ “تمام مذہبی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا۔ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا”۔ غالب نے اپنی ناپسندیدگی لکھی، “مجھے ان بچوں پر ترس آتا ہے جو خون کے سمندر کے بھنور کا حصہ بن گئے”۔
ظہیر دہلوی لکھتے ہیں، “کرتے اور دھوتیوں میں ملبوس تین چار افراد کو دیکھا۔ تلواریں اڑسی ہوئی، پیپل کے درخت تلے کھڑے پوریاں اور مٹھائی کھا رہے تھے۔ میں آگے چل دیا۔ یہاں پر ایک بڑا پہلوان نما شخص نظر آیا جس نے بڑی لاٹھی کاندھے پر اٹھا رکھی تھی اوراس کے پیچھے بھی ویسے ہی حلیے والے کئی لوگ تھے۔ یہ سب دیکھنے میں بدمعاش لگ رہے تھے۔ انہوں نے شہر کی مشعلیں ڈنڈے مار کر توڑ دیں۔ ایک نے ہنس کر دوسرے کو بتایا کہ میں نے ابھی ایک کافر مارا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کپڑے کی دکان کا تالا توڑا اور میں وہاں سے بھاگ گیا۔ کوتوالی کے قریب دکانیں لوٹی جا رہی تھیں۔ بینک لوٹ لیا گیا۔ برسفورڈ کے خاندان کو عورتوں اور بچوں سمیت مار دیا۔ دہلی کے لفنگے، چمار، دھوبی، نائی، قصائی، کاغذی گلی سے کاغذ بنانے والے، جیب کترے، پہلوان اور بدمعاش بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ شہر کے شرفاء گھروں میں تالے لگا کر بیٹھے تھے۔ کسی کو نہیں پتا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ ایک گھنٹے میں چودہ لاکھ روپیہ لوٹا گیا ہو گا۔ چاندنی چوک کے پاس فساد چل رہا تھا۔ خون دریا کی طرح بہہ رہا تھا۔ محل کے دروازے کے قریب پچاس سوار نظر آئے۔ انگریزی کی کتابیں پھاڑ کر صفحے اڑا رہے تھے”۔
کچھ کو لوٹا گیا کہ وہ برٹش حکومت کے ساتھ تھے۔ کچھ کو اس لئے کہ وہ امیر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی اردو اخبار میں محمد باقر نے خبر لگائی کہ “یہ انگریز پر خدا کا قہر نازل ہوا ہے۔ جب انقلابی سپاہی یہاں آ رہے تھے تو کہتے ہیں کہ ان کے آگے اونٹنیاں تھیں جس میں سبزپوش سوار تھے۔ یہ غیبی مدد تھی۔ انہیں جہاں انگریز ملے، ان کو قتل کیا۔ بے شک اللہ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ ان پر اتنی کاری ضرب اسی گناہ کا نتیجہ ہے”۔
شام تک دہلی شہر میں رہنے والے برٹش کا بڑے پیمانے پر صفایا ہو چکا تھا۔ یا موت کے گھاٹ اتارے جا چکے تھے یا دہلی چھوڑ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہی محل کے لئے یہ بیرونی حملہ آور تھے۔ اس سے پہلے جب لال قلعے میں اس طریقے سے بغیر اجازت کوئی مسلح گروہ داخل ہوا تھا، وہ غلام قادر رہیلہ تھے جنہوں نے اس طریقے سے دہلی میں گھس کر 1783 میں مغل بادشاہ کو باندھ کر ان کی آنکھیں نکال دی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر اس وقت آٹھ برس کے تھے۔ اور اب باہر سے آنے والے سینکڑوں سپاہی بغیر جوتے اتارے شاہی محل میں پھر رہے تھے۔ اپنے گھوڑے بادشاہ کے پسندیدہ باغ میں باندھے ہوئے تھے۔ بادشاہ سے ملاقات کا تقاضا کر رہے تھے۔
چار بجے بادشاہ دیوانِ خاص میں آئے اور سپاہیوں کو شور کم کرنے کو کہا اور کہا کہ وہ اپنے افسروں کو بات کرنے کے لئے آگے کریں۔ کچھ سوار آگے آئے اور بادشاہ کو بتایا کہ وہ اپنے دین کی اور اپنے دھرم کی حفاظت کرنے کے لئے اٹھے ہیں۔ انہیں سور اور گائے کی چربی دی گئی تھی۔ انہوں نے میرٹھ میں یورپیوں کو قتل کر دیا ہے اور اب دہلی میں اپنے بادشاہ کے پاس آئے ہیں”۔
بہادر شاہ ظفر نے جواب دیا، “میں نے کسی کو نہیں بلایا تھا۔ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا”۔
سپاہیوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ بحث چلتی رہی۔ بادشاہ کا کہنا تھا کہ “ہمارا سورج تو ڈھل چکا ہے۔ یہ ہمارے آخری دن ہیں۔ مجھے صرف کچھ سکون کی خواہش ہے”۔
حکیم احسن اللہ خان نے سپاہیوں کو کہا کہ “تم لوگوں کو ماہانہ تنخواہ کی عادت ہے۔ بادشاہ کے پاس خزانہ نہیں۔ تم لوگوں کو کیسے تنخواہ ادا کی جا سکے گی”۔ سپاہی افسر نے کہا” ہم دولت کے لئے نہیں آئے۔ آپ حکم دیں گے تو ہم پوری سلطنت سے آپ کا خزانہ بھر دیں گے۔ بہادر شاہ ظفر کا کہنا تھا کہ “نہ میرے پاس سپاہی ہیں، نہ اسلحہ، نہ خزانہ۔ اور نہ ہی میں اس عمر میں ہوں کہ کسی کا ساتھ دے سکوں یا لڑ سکوں”۔ افسروں کا جواب آیا، “ہمیں صرف آپ کی حمایت درکار ہے۔ باقی ہم سنبھال لیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر بہادر شاہ ظفر نے ایک وقفہ لیا۔ اس میں سوچا ہو گا کہ ان کے پاس کیا چوائس ہے۔ بہادر شاہ کی خوبیوں میں بروقت قوتِ فیصلہ نہیں رہی تھی۔ لیکن یہ تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اس مرتبہ یہاں پر انہوں نے اپنی روایتی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ ان کے درباری ان سپاہیوں کا ساتھ دینے کے حق میں نہیں تھے لیکن شاید اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں انہوں نے آنے والوں کو اپنی حمایت دے دی۔ انقلاب کی سربراہی قبول کر لی۔
ظہیر دہلوی کے مطابق، “بادشاہ تخت پر بیٹھ گئے۔ سپاہی، افسر اور سارے ایک ایک کر کے آگے آتے، سر جھکاتے۔ ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور پیچھے ہٹ جاتے”۔
بہادر شاہ ظفر کے اس فیصلے کے ساتھ یہ اب چند سو باغی سپاہیوں کی بغاوت نہیں رہی تھی۔ اب یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی آخری مزاحمت تھی۔
تحریر: وہارا امباکر
(جاری ہے)
نوٹ : ساتھ لگی پہلی تصویر “جہاں نما” کا سکیچ ہے جو منصور علی خان نے بنایا۔ یہ جمنا کنارے میٹکاف کا گھر تھا۔ بارہ مئی کو اس کو جلا دیا گیا تھا۔ دوسری تصویر اس کے جلائے جانے کے بعد کی۔
No comments:
Post a Comment