_*مغلیہ زوال قسط 1*_
_*بوڑھے کی موت*_
نومبر 1862 کو دریائے رنگون کے کنارے انہیں دفنا دیا گیا۔ آخری رسومات میں دو بیٹے اور ایک معمر ملا نے شرکت کی۔ چھوٹے سے مجمع، جنہیں اس موت کا علم ہوا تھا، نے جمع ہونے کی کوشش کی تھی۔ فوجیوں نے انہیں روک دیا۔ ان میں سے ایک دو لوگ فوجیوں سے آنکھ بچا کر میت کو کاندھا دینے آ گئے تھے۔ انہوں نے ملکر لحد کو قبر میں اتار دیا۔
آخری رسومات مختصر رہیں۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد یہ لوگ چلے گئے۔ قبر پر مٹی ڈال دی گئی۔ احتیاط کی گئی تھی کہ کوئی نشان باقی نہ رہ پائے۔ ایک ہفتے بعد برطانوی کمشنر کیپٹن ڈیویس نے لندن بھیجنے کے لئے رپورٹ لکھی۔
“سرکاری قیدی کی موت پر کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کے پسماندگان بھی افسردہ نہیں۔ رنگون کی مسلمان آبادی نے بھی اس کو کوئی خاص نوٹ نہیں کیا۔ اس جگہ پر گھاس اگ آئے گی اور کوئی نام و نشان نہیں رہ جائے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسطی ایشیا میں وادئ فرغانہ سے آنے والے نوجوان ترک شاعر ظہیرالدین بابر نے درہ خیبر 1526 کو پار کیا تھا۔ اور ہندستان میں مغل خاندان کی حکمرانی کی بنیاد ڈالی تھی۔ مغل تیموروں کا گھرانہ جنوبی ایشیا پر تین صدیوں تک حکومت کرتا رہا اور ہندوستان کی تاریخ کی شاندار ترین سلطنت رہی۔
مغلوں نے اسلام کے بہت روادارانہ اور کثرت القومی روپ کو ڈیفائن کیا۔ ان کی شاندار سلطنت انڈیا کی ہندو اکثریت کے ساتھ ملکر قائم کی گئی تھی۔ خاص طور پر راجستھان کے راجپوتوں کے ساتھ جو مغلوں کی فوج کا بڑا اہم حصہ تھے۔ مغلوں نے کامیابی میدانِ جنگ میں ہی نہیں، طریقہ حکومت سے حاصل کی تھی۔ اور یہ حکمرانی ہندوستان کی غیرمسلم اکثریت آبادی کو بھی قابلِ قبول رہی۔ یہ مغلوں کی صلحِ کُل کی ڈاکٹرائن تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت یورپ میں مذہبی جنگیں جاری تھی، مذہبی منافرت پر قتل و غارت کی جا رہی تھی، پورا برِاعظم فرقہ وارانہ آگ کی لپیٹ میں تھا، علم و شعور کو مخالفت کا سامنا تھا، برونو کو گھسیٹ کر تختہ دار پر لے جایا جا رہا تھا۔۔۔ مغل بادشاہ کی طرف سے فرمان جاری ہوا تھا، “کسی شخص کو کسی دوسرے کے مذہب میں مداخلت کا حق نہیں۔ ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے”۔ انتظامیہ کے ہر لیول پر مذہبی تفریق کے بغیر ترقی دی جاتی تھی۔ اکبر نے اپنے سابق دشمن، جے پور کے راجہ من سنگھ، پر بھروسہ کرتے ہوئے علاقے کا دفاع انہیں سونپ دیا تھا۔ شاہی محل سے دانشوروں اور آرٹسٹ کو خصوصی مقام ملتا تھا۔ مسلمان بھی اور غیرمسلمان بھی۔
شاہ جہاں کے دور میں اس سلطنت میں تمام پاکستان کا علاقہ اور افغانستان کا بڑا علاقہ شامل تھا۔ فوج ناقابلِ شکست نظر آتی تھی۔ محلات کی شان و شوکت کا دنیا بھر میں مقابلہ نہ تھا۔ کئی مزارات کے گنبد سونے سے چمکتے تھے۔
اس ہم آہنگی کے ماحول میں ایک بڑا گھاوٗ پالیسی میں تبدیلی تھی اور اس کا ایک بڑا واقعہ گورو تیغ بہادر کو دی جانے والی سزائے موت تھی جو سکھوں کے نو عظیم استادوں میں سے ایک تھے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز پر اس عظیم سلطنت میں دراڑ پڑنے لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بہادر شاہ کی پیدائش 1775 میں ہوئی تو مغل عروج کے دن گزر چکے تھے۔ برطانوی ابھی ساحلوں پر تین جگہ موجود ایک چھوٹی سی قوت تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنے خاندان کی اہمیت ختم ہوتے دیکھی جبکہ دوسری طرف برطانوی کمزور تاجروں سے جارحانہ ملٹری فورس میں تبدیل ہوتے گئے۔
بہادر شاہ نے اپنا تخلص ظفر رکھا تھا جس کا مطلب فتح ہے۔ جب اپنے والد کی وفات کے بعد وہ بادشاہ بنے تو ان کی عمر پینسٹھ سال کے قریب تھی۔ اس وقت تک مغلوں کا سیاسی انحطاط روکنا ناممکن ہو چکا تھا لیکن وہ دہلی دربار میں بڑے شاندار دماغ اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے۔ تمام مغلیہ بادشاہوں میں شاید وہ سب سے زیادہ ٹیلنٹ رکھنے والے، روادار اور ہر ایک میں پسند کئے جانے والے بادشاہ تھے۔ ماہر خطاط، مصنف، صوفی، مصوری کا زبردست ذوق رکھنے والے اور مصوروں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، باغبان اور امیچور آرکیٹکٹ۔ اور وہ ایک سنجیدہ صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے شاعری نہ صرف اردو اور فارسی میں کی بلکہ براج بھاشا اور پنجابی میں بھی۔ اور ان کی سرپرستی تھی جس وجہ سے یہ دور اردو ادب کا ایک سنہرا دور رہا۔ وہ نہ صرف خود غزل لکھتے تھے بلکہ مرزا غالب اور ان کے رقیب ذوق جیسے اساتذہ کے ٹیلنٹ کی قدر بھی شاہی دربار سے کی گئی۔ یہ ویسے ٹیلنٹ تھے جیسے یورپ میں موزارٹ اور سلیئیری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی اپنا اثر پھیلاتے رہے۔ مغل اختیارات کم ہوتے گئے۔ سکوں سے مغل نام مٹا دیا گیا۔ دہلی شہر کا نظم و نسق بھی مغلوں کے پاس نہ رہا۔ اور پھر برٹش نے مغل حکمران پر واضح کر دیا کہ وہ لال قلعے سے مغلوں کو بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لال قلعے کا ریکارڈ ہمیں شاہی درباری ریکارڈ میں بھی نظر آتا ہے اور برٹش ریزیڈنٹ کی کورٹ ڈائری میں بھی جو اب نیشل آرکائیو آف انڈیا کا حصہ ہے۔ بہادر شاہ ظفر ہمیں ایک بے ضرر، وضعدار اور رکھ رکھاوٗ والے بزرگ کی صورت میں نظر آتے ہیں جو اپنے ادب آداب اس وقت بھی نہیں چھوڑتے جب برطانوی ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ شکار کرنے، مشاعرے کروانے، چاندنی رات سے لطف اندوز ہونے، موسیقی سننے اور آم کھانے کے شوقین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1857 کی صبح کو تین سو سپاہی اور سوار میرٹھ سے دہلی آتے ہیں جو ہر کرسچن مرد، عورت اور بچے کو قتل کر دیتے ہیں جو بھی ان کے ہتھے چڑھتا ہے۔ اور پھر بہادر شاہ ظفر کو اپنا لیڈر اور بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور انہیں انقلاب کی سربراہی کی درخواست کرتے ہیں۔ ظفر برٹش کے دوست نہیں لیکن انقلابی راہنما بھی نہیں۔ لیکن ان کے پاس جو انتخاب تھے، ان کو دیکھ کر انہوں نے انقلاب کے سربراہ کا کردار نبھانے کو ترجیح دی۔ اگرچہ انہیں بہت امید نہیں تھی کہ یہ رنگ لائے گی۔ برٹش دنیا کی طاقتور ملٹری پاور تھے لیکن انہوں نے اپنی بنگال آرمی کے انڈین فوجی گنوا دئے تھے جو برطانوی افسران سے بغاوت کر کے مغل بادشاہ کے جھنڈے تلے اکٹھا ہونے آئے تھے۔
اس فوج کے پاس محدود اسلحہ تھا، پیسے نہیں تھے، سپلائی نہیں تھی، انتظامی ناتجربہ کاری تھی۔ دہلی سے باہر دیہات میں پھرنے والے لٹیروں نے شہر کا ناطقہ برٹش سے بھی زیادہ کامیابی سے بند کر دیا تھا۔ دہلی کے شہری اور انقلابی سپاہی فاقوں کی نوبت پر آ گئے تھے۔
یہ کالونیل دور میں برطانویوں کو پیش آنے والا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ یہ 1857 میں ہندوستان پر مغلوں اور انگریزوں کے لئے بقا کی جنگ تھی۔
(جاری ہے)
۔
No comments:
Post a Comment