_*سائنس*_
_*(قسط 5: زمان و مکاں)*_
*SPACE AND TIME*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمان و مکاں (space and time)، ایک خوبصورت شاعرانہ سا تصور، کچھ کچھ فلسفہ لئے ہوئے۔۔۔۔۔
ہمارے بہت سے شعراء کرام نے اس پر خوب طبع آزمائی کی ہے۔
فلسفہ کا بھی یہ پسندیدہ موضوع رہا ہے اور ارسطو سے لے کر جدید دور تک، بے شمار فلاسفرز نے زمان و مکاں کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے سمجھا ہے۔
سائنس میں اس کے دو تصور رہے ہیں۔ ایک روایتی یا نیوٹن کا تصور اور دوسرا جدید یا آئین اسٹائن کا تصور۔
اسپیس کی روایتی تعریف کے مطابق، یہ ایسی سہ العبادی (Three dimensional) وسعت ہے جہاں اجسام و واقعات نسبتی مقام اور سمت رکھتے ہیں۔
یا جسے ہم اسکیل کی مدد سے ناپ سکیں، اسپیس کہلاتی ہے۔
واضح رہے کہ یہاں لفظ اسپیس، وسیع معنوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی میں وہ اسپیس یا خلاء بھی شامل ہے جو زمین سے بلندی پر واقع ہے۔ اور خود زمین بھی اسپیس میں گردش کر رہی ہے اور جہاں آپ بیٹھے ہیں یا چل پھر رہے ہیں، وہ جگہ بھی اسپیس ہے۔
طبعی اسپیس تین سیدھی ڈائمینشنز پر مشتمل ہوتی ہے، جو کہ لمبائی، چوڑائی اور اونچائی پر مشتمل ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے آپ ایک بس کا تصور کیجئے۔ بس کی ایک چوڑائی، ایک لمبائی اور ایک اونچائی ہوتی ہے۔ یہ اس کی تین ڈائمینشنز ہیں۔ ہر شے کی یہی تین ڈائمینشنز ہوتی ہیں، حتی کہ کاغذ جیسی باریک شے کی بھی لمبائی اور چوڑائی کے ساتھ کچھ نہ کچھ موٹائی بھی ہوتی ہے، چاہے یہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر کسی شے کا سایہ دیوار پر پڑ رہا ہو تو اس سائے کی لمبائی اور چوڑائی تو ہو گی مگر موٹائی نہیں ہو گی۔ چنانچہ اشیاء کے سائے دو ڈائمینشنز رکھتے ہیں۔ اسی طرح تمام تصاویر بھی دو ڈائمینشنل ہوتی ہیں۔ آپ نے تھری ڈی فلم دیکھی ہو گی، اس میں تیسری ڈائمینشن ایک بصری دھوکہ illiusion ہے جو مصنوعی طور پر تخلیق کیا جاتا ہے۔ ان فلموں سے لطف اندوز ہونے کے لئے مخصوص چشمہ درکار ہوتا ہے۔
اسپیس کی ان تینوں ڈائمینشنز کو بالترتیب ایکس، وائی اور زیڈ ایکسز (x,y,z axis) کہا جاتا ہے۔ ہر ایکسز، دوسرے ایکسز کے ساتھ نوے درجے کا زاویہ بناتے ہوئے، عموداً واقع ہوتا ہے۔
یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ ہماری کائنات کسی پہلے سے موجود اسپیس میں نہیں پیدا ہوئی، بلکہ جب تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پہلے یہ وجود میں آئی تو اس وقت نہ اسپیس تھی اور نہ ٹائم۔ کائنات کے وجود کے ساتھ ہی اسپیس اور ٹائم دونوں پیدا ہوئے۔ اور اب بھی کائنات تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسپیس بھی وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
وقت کیا ہے؟ اس کی سادہ سی تعریف تو یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا وقفہ یا نقطہ جس میں کوئی واقعہ، ایکشن یا پروسیس رونما ہوتا ہے ٹائم کہلاتا ہے۔ یعنی اگر وقت نہ ہو تو کوئی واقعہ ہو ہی نہیں سکتا یا اگر کوئی نظام تبدیلی کے عمل سے نہیں گزر رہا تو پھر وہ ٹائم لیس ہے۔
وقت کی پیمائش سیکنڈ، منٹ اور گھنٹہ میں کی جاتی ہے۔ مگر وقت کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ مشہور سائنسدان، اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب، وقت کی مختصر تاریخ، میں وقت کے کائناتی اور طبیعیاتی تصور کو موضوع بنایا ہے۔
کلاسیکل فزکس میں وقت کو ایک آزاد قدر قرار دیا جاتا رہا ہے، جس کی پیمائش پوری کائنات میں ہر مقام پر یکساں ہوتی ہے۔ مگر ماڈرن فزکس میں وقت کے تصورات میں انقلابی تبدیلیاں آئیں اور تمام روایتی تصورات کے محل زمین بوس ہو کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔹زمان و مکاں کے جدید تصورات🔹
انیسویں صدی کے اختتام پر، سن 1900 میں سائنسدانوں کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہو گیا تھا کہ فزکس کے تمام بنیادی نظریات دریافت کر لئے گئے ہیں اور اب ایسا کچھ باقی نہیں رہا جو بنیادی ہو اور دریافت نہ ہو چکا ہو۔ لیکن وہ کیا جانتے تھے کہ ابھی تو صحیح معنوں میں دریافتوں کے سفر کا آغاز بھی نہیں ہوا۔
اسی سال مائکلسن-مورلے کے تجربات نے کلاسیکل فزکس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں اور پھر میکس پلانک کی کوانٹم تھیوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ یہ کوانٹم مکینکس کا نقطۂ آغاز تھا، اس کے بعد فزکس ایک جہانِ حیرت کی دریافت کے سفر پر نکل کھڑی ہوئی۔ دریافت کے اس سفر کے اولین مسافروں میں بہت بڑا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئین اسٹائین۔
آئین اسٹائن (جسے آئین شٹائن کہنا زیادہ درست ہے) نے سن 1905 میں اپنا مشہورِ زمانہ "اضافیت کا نظریۂ خاص" (Special Theory of Relativity) پیش کیا۔ اور پھر دس سال بعد 1915 میں محنتِ شاقہ کے نتیجے میں اپنا دوسرا نظریہ، جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی پیش کیا۔ ان دونوں نظریات نے کائنات کے وجود اور زمان و مکان کے تصورات کو بدل کر رکھ دیا۔
اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی دو نکات پر مشتمل ہے۔
1۔ انرشیا (Inertia) یا غیر اسراعی نظام میں کائناتی قوانین یکساں رہتے ہیں۔
2۔ ویکیوم میں روشنی کی رفتار، تمام مشاہدہ کنندگان کے لئے یکساں ہوتی ہے، چاہے روشنی کا منبع متحرک ہو یا ساکن۔
آئین اسٹائن نہیں جانتا تھا کہ کوئی قابلِ احترام شخصیت ان قوانین سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ گہرائی سے ان پر غوروفکر کر رہی ہے۔ یہ شخصیت اسکے طالبعلمی کے زمانے کے پروفیسر ہرمین منکوسکی (Hermann Minkowski) تھے۔
پروفیسر صاحب نے تین سال غوروفکر کرنے کے بعد سن 1908 میں ان کے منطقی نتائج مرتب کرتے ہوئے، ایک دھماکہ خیز انکشاف کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وقت، اسپیس سے آزاد نہیں بلکہ اس کا لازمی جزو ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح اسپیس کی تین ڈائمینشنز، ایکس، وائی اور زیڈ ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے عموداً واقع ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح ٹائم ان کی چوتھی ڈائمینشن ہے اور یہ بقیہ تینوں ڈائمینشنز پر عموداً واقع ہے۔
اس نظرئیے نے وقت کی آزاد حیثیت ختم کر کے اسے اسپیس کا حصہ بنا دیا۔ یوں زمان و مکاں یعنی ٹائم اینڈ اسپیس کی اصطلاح تبدیل ہوکر "اسپیس ٹائم" بن گئی۔ چنانچہ نہ مقام وقت سے الگ رہا، نہ وقت مقام سے الگ رہ گیا بلکہ یہ باہم مل کر ایک فیبرک کی طرح تانے بانے میں مدغم ہو گئے۔
آئین اسٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی اسی حقیقت کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ اس تھیوری میں اس نے گریویٹی کی تشریح اسپیس ٹائم کے نظرئیے کی بنیاد پر کی ہے۔
یہ نظریہ ریاضیاتی ثبوتوں سے تو مزین تھا، مگر تجرباتی شہادت سے محروم تھا۔
پھر 1919 میں سر آرتھر ایڈنگٹن نے اس کا ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیا۔ اس سال مکمل سورج گرہن ہوا تھا اور دن میں تارے (محاورتاً نہیں حقیقتاً) نظر آگئے تھے۔ وہ پہلے سے اس دن کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ تاروں کی پوزیشن متوقع مقام سے مختلف ہے۔ یہ انحراف سورج کی گریویٹی کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ رات کو جب ستارے نظر آتے ہیں، اس وقت سورج نہیں ہوتا۔ مگر اب دن میں سورج اپنے مقام پر تھا، تاہم گرہن کی وجہ سے چاند کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا۔ اور اس کی گریویٹی نے اسپیس ٹائم کو خمیدہ کر کے تاروں کے نظر آنے کا مقام بدل دیا تھا۔
اس تجربے نے راتوں رات آئین اسٹائن کی سچائی پر مہرِ تصدیق ثبت کر کے اسے شہرتِ دوام بخش دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
No comments:
Post a Comment