_*مغلیہ زوال 6*_
_*مذہبی اختلافات*_
ریورنڈ مجلے جیننگز ہندوستان میں 1832 میں پہنچے تھے۔ وہ کرسچن کمیونیٹی کے مذہبی راہنما تھے اور ان کا ایک اپنا ہی خیال تھا۔ “برٹش سرکار نے ہندوستان سے کوہِ نور ہیرا لے لیا ہے۔ اس کا قرض چکانا ہے اور وہ یہاں کے قدیم مذاہب کی جگہ مسیحیت کی روشنی پھیلنے سے ہو گا”۔ یہ جیننگز کی ڈائری سے ہے۔ دہلی کے چرچ میں ان کی تعیناتی 1852 میں ہوئی۔ جیننگز ایک مذہبی جنونی تھے جو خود اپنے ہم مذہب لوگوں کی اکثریت میں بھی زیادہ پسند نہیں کئے جاتے تھے۔ لیکن 1850 کی دہائی میں انڈیا میں کرسچن مذہبی حلقوں میں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔
پشاور کے کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز کے مطابق، “یہ سلطنت ہمیں خدا نے تحفے میں دی ہے تا کہ ہم پروٹسٹنٹ ازم یہاں پھیلا سکیں”۔
فتح پور میں ڈسٹرکٹ جج نے دس کمانڈمنٹ کا ترجمہ فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی میں کر کے مختلف مقامات پر لگوا دیا تھا اور ہندوستانی زبان میں مقامی لوگوں کو اکٹھا کر کے بائبل سنایا کرتے تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے چند افسر بھی اس نئے کام کے حق میں تھے۔ کرنل چارلس گرانٹ کا کہنا تھا، “خدا نے ہمیں یہ زمین اس لئے نہیں عطا کی کہ ہم یہاں سے صرف منافع کمائیں۔ مال، دولت، پیسہ دنیاوی چیزیں ہیں۔ ہمیں اپنی اقدار بھی مقامی لوگوں تک پہنچانی ہیں”۔ اس نئے عود آنے والے مذہبی جذبے کے ایک سپورٹر کلکتہ کے بشپ ریجینالڈ ہیبر تھے۔ ہیبر کی اردو میں لکھی گئی حمدیں آج بھی چرچ میں پڑھی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزوں کی آمد سے لے کر انیسویں صدی کے آغاز تک مسلمان علماء کا انگریزوں سے رویہ دوستانہ رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسلمان علماء مرہٹہ حکومت کے مقابلے میں برٹش راج کو ترجیح دیتے تھے اور انگریزوں کی آمد کے وقت مرہٹے ہندوستان کی سب سے بڑی پاور تھے۔ مسلمانوں نے کمپنی کی ملازمت اختیار کی جس میں قانون دان، منشی، ورکر یا استاد کے پیشے بھی تھے۔
جب انگریز پہلی بار دہلی آئے تو یہ مقامی لوگوں کے لئے ایک انوکھی چیز تھے۔ ایک بات مشہور ہوئی کہ یہ سیلون کی خواتین اور بندروں کے ملاپ سے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے باقاعدہ فتوٰی جاری کیا کہ “یہ ہماری طرح کے ہی لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہیں قرآن میں نصاریٰ کہا گیا ہے۔ ان سے میل ملاپ رکھا جا سکتا ہے۔ ان کی ملازمت کی جا سکتی ہے۔ ان کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھایا جا سکتا ہے، چہ جائیکہ کوئی حرام شے نہ ہو”۔
کئی مسلمان مولوی تھے جنہوں نے برٹش خواتین سے شادیاں کیں۔ دہلی کے کئی حلقوں میں مسیحیت میں انٹلکچوئل دلچسپی بھی رہی۔ 1807 میں جب مغل دربار میں نیو ٹیسٹیمنٹ کا عربی ترجمہ پیش کیا گیا تو نہ صرف اسے شکریے سے قبول کیا گیا بلکہ مزید کی فرمائش بھی ہوئی۔
کئی مسلمان علماء کے ذاتی تعلقات اور دوستیاں رہیں۔ شاہ عبدالعزیز کی دہلی کے کمشنر ولیم فریزر کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ فریزر ان سے ہفتے میں دو بار فارسی اور عربی پڑھنے آتے تھے۔ فریزر ہندوستانی روایات سے متاثر تھے۔ شاہ عبدالعزیز انہیں شریعت کے باریک نکتے سمجھایا کرتے تھے۔
ولیم فریزر کا ایک اور شوق دہلی کے پڑھے لکھے لوگوں کی محفل میں بیٹھنا تھا جن میں ایک مرزا غالب بھی تھے۔ فریزر نے گائے اور سور کا گوشت کھانا ترک کر دیا تھا اور مغل لباس اپنا لیا تھا۔
فریزر ایسا کرنے میں اکیلے نہیں تھے۔ ایسے کئی اور برطانوی تھے۔ برٹش ریزیدنٹ سر ڈیوڈ اوکرلونی ہندوستانی پاجامے اور پگڑی میں نظر آتے تھے۔ حقے اور دہلی کی رقاصاوٗں کے ناچ دیکھنے کے دلدادہ تھے۔ ان کی تیرہ بیویاں ہندوستان سے تھیں۔ ان کی ایک شادی پونے کی ایک برہمن رقاصہ سے ہوئی تھی جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ بی بی مبارک النساء تھیں۔ یہ مشہور تھا کہ جرنیلی بیگم کہلانے والے اس خاتون سے برٹش کمشنر خاصا دب کر رہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان گھرانوں میں اسلامی روایات اور حساسیت کو اچھی طرح سمجھا جاتا تھا اور ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ اوکٹرلونی کے کچھ بچے مسلمان تھے۔ مبارک بیگم کے ساتھ ان کی بیٹی کی شادی مرزا غالب کے بھتیجے سے ہوئی تھی۔
ایسے کئی خاندان تھے جو انگلستان سے آئے تھے اور نسل در نسل مقامی کلچر میں رچ بس گئے تھے۔ ہانسی کے سکنر، سردھانہ کے سومرو، خاص گنگ کے گارڈنر ۔۔۔ اسلامو کرسچن بفر زون کہلائے جا سکتے تھے۔ فارسی اور ہندوستانی بولنے والے اور ہر لحاظ سے تقریباً اسلامی مغلیہ طرز کی زندگی گزارنے والے۔
بہادر شاہ ظفر کی فرسٹ کزن مختار بیگم کی شادی ولیم گارڈنر کے بیٹے سے ہوئی تھی۔ ولیم کے والد نے کامبے کی بیگم سے شادی کی تھی۔ اس خاندان کے آدھے لوگ مسلمان تھے اور آدھے کرسچن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسچن مشنری پہلے بھی اپنے پمفلٹ تقسیم کرنے، تبلیغ کرنے اور مناظرے کرنے کا کام کرتے تھے۔ مسلم مسیحی مکالمے ہوا کرتے تھے، لیکن انیسویں صدی کے وسط میں آنے والے کرسچن تبلیغی شدت پسند ہر ایک کے لئے ناخوشگوار اضافہ تھے۔ اور انہوں نے مقامی طور پر برطانویوں کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا۔
برٹش نے کچھ مقامی مذہبی رسومات کو ممنوع قرار دیا تھا۔ جس میں 1829 میں ستی کی رسم کو غیرقانونی قرار دئے جانا تھا۔ (بیوہ کو شوہر کے ساتھ ہی جلا دینا)۔ اس پابندی کو کچھ ہندو مذہبی حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا تھا۔ ہندو بیواوٗں کو دوبارہ شادی دینے کی اجازت کے قانون نے اونچی ذات کے کئی ہندووٗں کو بہت رنج پہنچایا تھا۔ جیل میں قیدیوں کو مسیحیت کی تبلیغ کی اجازت ملنا اور مشنریوں کو یتیم بچوں کی پرورش کرنے کے لئے ادارے بنانے دینا مذہبی حلقوں میں بہت قابلِ اعتراض رہا۔
ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ برٹش نے جہاں زمین حاصل کی، وہاں پر مندروں، مسجدوں، مزارات، مدارس سے ان کی زمین کے ریکارڈ کے ثبوت مانگے جاتے تھے۔ نہ دئے جانے پر ان کی سرکاری امداد بند کر دی جاتی تھی۔ اس نے مذہبی راہنماوٗں کو نئے حکمرانوں کے خلاف کیا۔
سڑکوں کی تعمیر کے دوران مساجد اور مندروں کو منہدم کئے جانا۔ اور حماقت خیز غیرحساسیت سے ضبط شدہ مذہبی مقامات کو کئی مقامات پر کرسچن مشنری کے سپرد کر دئے جانا ۔۔۔ اس نے ہندوستانی آبادی کے جذبات مجروح کئے۔
اگرچہ ہندوستان میں ان نئے آنے والوں کو خاص کامیابی نہ ملی لیکن یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ انیسویں صدی کے وسط میں ہی وہ ماحول بنا کہ برٹش سرکار کی طرف سے کی گئی ہر اصلاح اور نئی چیز کو شک کی نظر سے دیکھے جانے لگا، خواہ وہ کتنی ہی عام سی اور کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو۔ اور یہی وہ وقت تھا جب مشنری فوبیا کی وجہ سے برٹش کی طرف سے بنائے گئے ہسپتال، سکول اور کالج سے بھی کئی مقامی لوگ کترانے لگے۔
(جاری ہے)
تحریر: وہارا امباکر
نوٹ: ساتھ لگی تصویر 1818 میں بنائی گئی ہے۔ یہ دلی کی سڑک سے گزرتے درباری قافلے کی تصویر ہے۔ تھامس میٹکاف اس میں شاہی دربار کے عہدیداران کے ساتھ ہیں۔
No comments:
Post a Comment