تپتے لہور میں اساتذہ کا احتجاج
====================
شاہد اقبال کامران
===================
پنجاب آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا صوبہ خیال کیا جاتا ہے ، مرکز میں عموماً وہی سیاسی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے ،جس نے پنجاب میں اکثریت حاصل کر لی ہو ۔دیگر صوبوں کے دوست پنجاب کو وسائل ہڑپ صوبہ ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں ۔اس کے باوجود ماننا پڑے گا کہ ہر بڑے فساد کا آغاز بھی پنجاب ہی سے کیا جاتا ہے ۔اب آنے والے انتخابات میں پنجاب بھر کے اساتذہ سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اس تعلیم دشمن حکومت کو ووٹ دینے کی بجائے اپنے پرانے جوتے دان کریں گے،کہ جس کے یہ لوگ صحیح طور پر مستحق ہیں۔ پنجاب بھر کے اساتذہ اور دیگر ملازمین اس وقت پنجاب حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں مرکز اور دیگر صوبوں کے مساوی اضافہ نہ کرنے اور پنشن کے قوانین میں ناقابل قبول ترامیم کے خلاف لاہور میں ایک پرامن اور منظم احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ بہرحال کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ جولائی کی مرطوب گرمی میں پنجاب بھر کے اساتذہ "تخت لہور"کی طرف سے تنخواہوں میں وفاق اور دیگر صوبوں کے مساوی اضافہ نہ کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان معاملات کو اس نہج تک پہنچانے کی وجہ سے نگران حکومت کو فوری طور پر اپنی نااہلی ،نالائقی اور غیر واضح شکلوں سمیت مستعفی ہو جانا چاہیئے ۔پاکستان کے مالی حالات کو کسی آئی ایم ایف نے نہیں، ہماری بڑے اور غیرضروری حجم کی حکومتوں، ہماری مراعات سمیٹ بیوروکریسی ، ہماری عدل گریز اعلی و ادنی عدلیہ اور ہمارے "طمنچہ" برداروں کی خواہشات زر نے مفلوج کر رکھا ہے۔قوم کو ان سارے دنبوں کی بیک وقت قربانی کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
ہم عام لوگ ہیں، جولائی کی شدید ترین گرمی میں صوبے کے اساتذہ تخت لہور کی بے فیض سڑکوں پراحتجاج کر رہے ہیں اور ابھی تک کوئی سیاسی جماعت یا لیڈر ان کے ساتھ آکر کھڑا نہیں ہوا ۔اور تو اور ملک کا بے چین الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی بےہوش پڑا ہے۔اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا ،یعنی ہر ہاتھ میں طلسمی آئینہ نہ ہوتا،تو لاہور میں پنجاب بھر سے آئے اساتذہ کا شدید گرمی میں کیا جانے والا تاریخی احتجاج مستور ہی رہتا ۔میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بے حسی اور بے بسی سے مایوس ہوا ہوں۔حکومتوں کا تو ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ خبر کو چھپایا جائے ،اور عامتہ الناس کو وہی کچھ بتایا جائے جو حکومت بتانا چاہتی ہو ۔لیکن میڈیا نے ہمیشہ مزاحمت کی اور ممکن حد تک کوشش کرتے رہے کہ کسی نہ کسی ڈھنگ سے خبر اپنی منزل پر پہنچتی رہے۔لیکن لاہور میں اساتذہ کے احتجاج کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے اس نے حکومت کو تو خیر کیا بے لباس کرناتھا ،وہ تو پہلے ہی چھڈی پہنے پھر رہی ہے ،ہاں مگر اس طرزِ عمل نے ملک کے اعلی و ارفع اور جرات مند صحافیوں کا لفافہ ہونا ثابت کر دیا ہے۔بھلا استادوں سے کسے ہمدردی ہو سکتی ہے؟ ستم ظریف نے پہلی بار پنجاب کے اساتذہ کو گرم سڑکوں پر خوار و زبوں دیکھ کر حددرجہ مایوسی اور ناامیدی کا اظہار کرتے ہوئے ،تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید یہی وہ مناسب اور موزوں وقت ہے کہ شہباز شریف اپنے سپہ سالار کا کندھا استعمال کرتے ہوئے پنجاب بھر کے اساتذہ سے جان چھڑا لے، ن لیگ اپنی ولادت سے لے کر آج تک استاد دشمن رہی ہے ۔پنجاب میں سرکاری کالج ایجوکیشن کو تباہ کرکے پرائیویٹ سیکٹر کے "گروپ آف کالجز" کی تحویل میں دینا اور پرانے اور بڑے کالجوں کو "یونیورسٹی" کا نام اور خودمختاری کا جھانسہ دے کر ان کی مالیات سے خود کو الگ کرنا ن لیگ کے نمایاں کارناموں میں شامل ہے۔بہرحال،اب جبکہ دنیا کی بہترین عسکری طاقت بقول ستم ظریف " وائی بیجی" پر اتر آئی ہےاور وہ بھی صرف ملک میں سر سبز انقلاب لانے کے لیے ،تو لگے ہاتھوں تنخواہوں میں مرکز اور دوسرے صوبوں کے مساوی اضافہ مانگنے والے اساتذہ کی جگہ تعلیمی اداروں میں فوجی دستے تعینات کرکے ،انہیں بچوں اور تھوڑے سے بڑے بچوں کو پڑھانے کا ٹاسک دے دینا چاہیے۔ویسے بھی یہ اساتذہ پہلے کون سے اچھے نتائج دے رہے ہیں ۔ان کے پڑھائے ہوئے بچے بعد میں سرکاری نوکریاں مانگتے ہیں۔انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں،اور الیکشنز میں نالائق سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ اے کاش اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی لیڈر ہوتا، کوئی سماجی مصلح ہوتا ، کوئی مقبول شاعر یا فکشن نگار ہوتا،تو وہ چند روز سے تخت لہور کی تپتی سڑکوں پر مرجھاتے مرد و خواتین اساتذہ کے ساتھ آکر کھڑا ہو جاتا، اور اساتذہ کے مطالبات کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوے کہتا کہ میں ان کے مطالبات تسلیم ہونے تک ان کے ساتھ احتجاج کروں گا۔
کاش کوئی عظمی یا عالیہ کا معزز جج ازخود اپنی مراعات اور تنخواہ میں تخفیف کا اعلان کرتا کہ میں اپنے ملک کے اساتذہ سے زیادہ تنخواہ لے کر ضمیر کا مجرم نہیں بن سکتا۔کاش سینٹ آف پاکستان کے اسپیکر اپنی اور سینٹ ملازمین کی تنخواہوں میں سو فی کا اضافہ استادوں کے حق میں واپس کر دیتا ۔کاش وزیر اعظم اپنی کابینہ کو تین وزراء تک محدود کر کے سارے سفید ہاتھیوں اور ان کے اخراجات سے جان چھڑا لیتا۔کاش وفاقی سیکٹریز کی تعداد بھی بہت کم کر دی جاتی۔کاش پنجاب کی اور مرکز کی بیوروکریسی کے لیے خریدی گئی بیش قیمت کاریں نیلام کر کے وہ رقم اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے استعمال میں لائی جاتی۔ کاش انسانی حقوق کے ازخود علمبردار وکلاء ،جو پرجوش تقریریں کر کر کے سامنے لگا سہما سا مائیکروفون بھگو کر رکھ دیتے ہیں، اساتذہ کی مکمل حمایت کا اعلان کر کے ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔اب کہاں گم ہو گئے ہیں وہ اشتہاری شاعری کرنے والے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مہنگے وکیل اعتزاز احسن ؟ ان سے پنجاب کے اساتذہ کا سوال ہے کہ یہ
"ریاست ہو گی ماں کے جیسی"
والی بات کس برتے پر کی تھی؟
میر امن کے ناول باغ وبہار میں ایک کردار کی طرف سے اٹھایا گیا یہ سوال آج بھی اعتزاز احسن کا منہ چڑا رہا ہے اور جواب طلب ہے کہ؛
کس برتے پہ ٹھنڈا پانی؟
اور کہاں ہیں شدید گرم موسم میں بھی بلیک وولن سوٹ پہن کر ننگے سر پریکٹس کرنے والے لطیف کھوسہ؟ اورکہاں ہیں علی احمد کرد؟ کہاں ہیں یہ سارے انصاف کے بزنس ٹائیکون ؟ ان سب کی سیاست اپنے اپنے چیمبر کے مفادات کے لیے ہوتی ہے ۔ان کے ہاں صحیح غلط،جائز ناجائز یا کسی نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی،یہ بس خود کو عدلیہ کے حوالے سے اتنا مشہور اور متنازعہ ضرور رکھنا چاہتے ہیں ،کہ جس کی وجہ سے اعلی عدالتوں کے ارفع ججز ان کے چیمبر کے کیسز کو خاموش ریلیف دیتے جائیں۔یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کے چیمبر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کے نگران یا غصہ نکالنے کے لیے یوں کہہ لیں" پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز" ہوتے ہیں۔ کاش وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب ننگے پاؤں چلتے ہوئے اساتذہ کے جلسے میں جائیں اور معذرت کر کے تمام مطالبات فوری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیں۔
اگر ان ساری توقعات میں سے کوئی ایک بھی پوری نہیں ہوتی تو پھر راستے میں آنے والی ہر دیوار مسمار کر کے ایک نیا نظم قائم کرنا ہو گا۔اقبال کا فرمان ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیئےکہ:
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھُونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
=====================
No comments:
Post a Comment