Sunday, July 30, 2023

مغلیہ زوال قسط نمبر 13: محلاتی سیاست

 _*مغلیہ زوال 13*_


_*محلاتی سیاست*_


شاہی محل میں پانچ شہزادے ۱۸۵۷ کے انقلاب کے پرجوش حمایتی تھے۔ انہیں اپنے مستقبل کی امید نہیں رہی تھی اور انہوں نے قسمت کے دئے گئے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ ان پانچ میں سے چار اس سے پہلے گمنام رہے تھے اور خاص صلاحیتوں کے مالک نہ تھے۔

تئیس سالہ مرزا خضر سلطان بہادر شاہ ظفر کے نویں بیٹے تھے اور حرم کی ایک خاتون رحیم بخش بائی سے تھے۔ ان کا ریکارڈ میں ایک واقعہ ملتا ہے جب انہوں نے اپنی بیوی کو پیٹا تھا اور اس وجہ سے بھرے دربار میں ظفر نے ان کی سختی سے سرزنش کی تھی اور دو تین تھپڑ لگائے تھے۔ خضر سلطان نے بادشاہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگ تھی اور بادشاہ نے انہیں اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اچھے شاعر اور نشانہ باز تھے۔

دوسرے مرزا ابوبکر تھے جو ظفر کی جائز اولاد میں سب سے بڑے پوتے اور سابق ولی عہد مرزا فخرو کے بیٹے تھے۔ ان کا اس سے پہلے ریکارڈ میں صرف ایک ہی واقعہ ملتا ہے جس میں ایک حادثے میں ایک انگلی کٹ گئی تھی۔ اس انقلاب کے دوران ان کا طرزِ عمل اچھا نہیں رہا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین اور شراب کے چکر میں رہتے تھے اور نوکروں اور چوکیداروں کو پیٹتے تھے۔

تیسرے شہزادے مرزا بختاور شاہ تھے جو ظفر کے گیارہویں بیٹے تھے جو حرم کی خاتون ہنوا سے تھے۔ چوتھے مرزا عبداللہ تھے جو ظفر کے سب سے بڑے بیٹے کے بیٹے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن پانچویں شہزادے ان سب سے مختلف تھے اور انہوں نے جلد ہی خود کو سول ایڈمنسٹریشن کے سربراہ کے طور پر منوا لیا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے پانچویں بیٹے 29 سالہ مرزا مغل تھے۔ انقلاب سے پہلے بھی ان کا ذکر بہت ریکارڈز میں ملتا ہے۔ ان کے پاس قلعہ دار کا عہدہ تھا اور شاہی ملازمین کو تنخواہیں دینا اور کنٹرول کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ ان کی دو تصاویر بھی محفوظ ہیں۔ اس میں ہینڈسم اور ایتھلیٹک نوجوان، گہرا رنگ، بھوری آنکھیں اور سیاہ داڑھی۔ اگر ظفر کی شخصیت تحمل والی، ٹھہری ہوئی، جوش سے خالی اور فیصلہ لینے میں تاخیر والے معمر شخص کی نظر آتی ہے تو یہ اس کا بالکل ہی معکوس تھے۔ بے صبرے، غصے والے، دنیادار، پرجوش اور کچھ تلخ مزاج۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہ مئی کی صبح شہزادے بادشاہ کے پاس آئے اور ان سے فوج کی کمانڈ کی اہم عہدوں کی درخواست کی۔ پہلے یہ مسترد کر دی گئی۔ بادشاہ نے کہا کہ “تم لوگ کرو گے کیا؟ تمہیں اس کا تجربہ نہیں” لیکن اصرار کرنے پر پندرہ مئی کو یہ قبول کر لی گئی۔ سپاہیوں کی حمایت کے بعد مرزا مغل کو انقلابی فوج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میوٹینی پیپرز میں بڑی حیران کن بات ملتی ہے جو تاریخ سے غائب ہے، وہ مرزا مغل اور ان کا فعال کردار ہے۔ ہزاروں احکامات ہیں جو ان کی طرف سے جاری ہوئے۔ پیپرز کی کلکشن 60 میں صرف انہی کے جاری کردہ احکامات ہیں جن کی تعداد 831 ہے۔

تاریخ میں، خواہ کسی کی بھی لکھی ہو، ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ مغل شہزادے سست اور نکمے تھے۔ مرزا مغل کو ایک بے کار ارسٹوکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ مرزا مغل انقلابیوں میں سب سے زیادہ محنتی اور متحرک نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں کسی حد تک تنظیم اور باقاعدہ انتظامیہ مہیا کی۔ اگرچہ کہ بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں، باغی سپاہیوں اور فری لانس جہادیوں کو متحد فورس بنانے اور ان کے اختلافات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اس ناکامی کی وجہ محنت اور کوشش کی کمی نہیں تھی۔

سپاہیوں کو شہریوں سے دور رکھنے، ان کے لئے قائم کردہ ملٹری کیمپ، پولیس کو بازاروں میں لوٹ مار کو کنٹرول کرنے کی ہدایات، سپاہیوں کو تنخواہ کی ادائیگی کے وعدے، پیسے اکٹھا کرنے کی کوشش، سپاہیوں اور دہلی والوں کو خوراک کی سپلائی بحال کرنے کی کوشش، انفرادی لوگوں کی عرضیوں پر ایکشن۔  کدالوں، بیلچوں، کلہاڑیوں اور ریت کے تھیلوں کا بندوبست کر کے ان سے خندق بنانے اور دفاعی کام کروانا، ملٹری کے لئے سخت ڈسپلن کے احکامات ۔۔ جیسا کہ گھر کی تلاشی بغیر پرمٹ کے نہیں کی جا سکتی۔ گوجر قبائل سے مذاکرات تا کہ شہر کے باہر راستے محفوظ بنائے جا سکیں۔ بہادر شاہ ظفر کی تصویر والے سکے جاری کرنے والی ٹکسال کا قیام اور اپنے والد کی حمایت پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور اپنے بھائیوں کو کنٹرول میں رکھنا۔ یہ ان جاری کردہ کاغذات میں دکھائی دیتا ہے۔

مرزا مغل نے ایک خط ہندوستان کے نوابوں اور راجاوٗں کے لئے لکھا کہ وہ اس انقلاب میں ان سے وفاداری دکھائیں۔ ستی کی رسم پر انگریز سرکار کی لگائی جانے والی پابندی، مذہب تبدیل کرنے پر عاق کر دینے پر پابندی، جیلوں میں کرسچن مبلغین کی موجودگی کا ذکر الگ الگ خاص طور پر کیا گیا۔ “انگلش ہم سب کے مذاہب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اپنا کام جاری رکھنے دیا گیا تو وہ ہمارے دھرم ختم کر دیں گے۔ یہ ہندو اور مسلمان کے برابر دشمن ہیں اور ہمیں اکٹھا ہو کر ان کا صفایا کرنا ہے۔ اس طرح ہم اپنی جان اور اپنا ایمان بچا سکیں گے”۔

مورخین کو لال قلعے سے جاری کردہ ایک اور دستاویز ملی جو ہر لحاظ سے ماڈرن دستاویز کہی جا سکتی ہے، جس میں معاشی اور سماجی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمینداروں پر ٹیکس، سرکاری ملازمین کے مسائل، فوجی بھرتیاں اور برٹش درآمدات کی وجہ سے مقامی ہنرمندوں کی بیروزگاری کا۔ مذہبی، سیکولر، سیاسی، عوامی ۔۔۔ مرزا مغل کسی مشاق سیاستدان کی طرح ہر طریقے سے سپورٹ جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکہ زینت محل اور ان کے بیٹے مرزا جوان بخت نے دوسرا راستہ چنا۔ زینت محل اپنے شوہر کے انقلابی افواج کی حمایت کے فیصلے سے نالاں تھیں۔ ان سے شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بادشاہ نے کسی اہم بات پر ان کے مشورے کے خلاف عمل کیا تھا۔ ملکہ نے شاید اندازہ لگا لیا تھا کہ برٹش واپس آ جائیں گے اور سپاہیوں کو شکست ہو گی۔ اور اگر اس وقت برٹش سے وفاداری دکھائی جائے تو ان کے بیٹے کو اگلے بادشاہ بنایا جا سکے گا۔

محل میں اب دو دھڑے بن گئے تھے۔ پرو برٹش سائیڈ پر زینت محل کے علاوہ ظفر کے وزیرِ اعظم حکیم احسن اللہ، سمدھی الہی بخش، متعمدِ خاص محبوب علی خان بھی تھے۔

ظفر ان کے درمیان ایک مشکل صورتحال میں تھے۔ سپاہیوں کے خطرے سے بھی واقف تھے۔ ان کے طور طریقوں سے بھی خوش نہیں تھے اور لوٹ مار سے بھی نالاں تھے لیکن دوسری طرف، انہیں معلوم تھا کہ تیمور کے گھرانے کو بچانے کا موقع یہی تھا۔ یہ انقلاب ان کے خاندان کی بادشاہت بچا سکتا تھا جس کی وہ کوشش بیس برسوں سے کرتے رہے تھے لیکن اس سے پہلے تک امید چھوڑ چکے تھے۔

اور پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے بہادر شاہ ظفر کے لئے واپسی کا کوئی بھی راستہ بند کر دیا۔ یہ انقلابیوں کی طرف سے شاہی محل میں حفاظت میں رکھے گئے 52 شہریوں کا کیا گیا بہیمانہ قتل تھا۔

(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


ساتھ لگی تصویر مرزا مغل کی ہے جن کا اس جنگ میں کلیدی کردار رہا۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 12: آزادی کے بعد

 _*مغلیہ زوال 12*_


_*آزادی کے بعد*_


انقلاب کا مقابلہ کرنے سب سے موثر جواب لاہور اور پشاور سے آیا۔ لاہور میں جان لارنس ایک اچھے منتظم تھے اور پشاور کے جان نکلسن اور ہربرٹ ایڈورڈز سخت گیر فوجی۔ انہوں نے فوری جواب کا منصوبہ بنایا۔ “ہمیں فوری حرکت میں آنا ہو گا۔ اب وقت ان سپاہیوں کے شکوے دور کرنے کا نہیں رہا۔ اب انہیں کچل دینے کا وقت ہے۔ اور جتنا جلد یہ خون بہایا جائے گا، اتنا ہی کم خون بہانا پڑے گا”۔ ایڈورڈز نے یہ پیغام لارنس کو بھیجا۔ چار روز میں جہلم میں یہ عسکری کالم تیار تھا جو سبک رفتاری سے کسی بھی سمت بغاوت کچلنے جا سکتا تھا۔


نکلسن ایک سخت مزاج افسر تھے اور راولپنڈی کے کمشنر کے طور پر انہوں نے اس کا سرِعام مظاہرہ دکھایا بھی تھا۔ ایک بدنام ڈاکو کو جب انہوں نے پکڑا تھا تو اس کا سر اتار کر اپنے میز پر سجایا تھا۔ وہ سخت محنت کرنے میں بھی اور کروانے میں بھی شہرت رکھتے تھے۔ مقامی آبادی میں کچھ لوگوں میں بہت پسند بھی کئے جاتے تھے لیکن خود مقامی لوگوں کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ “دنیا میں ہندوستانیوں سے زیادہ گندی اور ظالم ایک ہی قوم ہے اور وہ افغان ہیں”۔ اٹک پر قبضے میں ان کی شجاعت کی داستانوں کا چرچا تھا۔ وہ کسی کو قیدی بنانے کے قائل نہیں تھے۔

ان کے ارادے زیادہ خون آشام تھے جو انہوں نے دوسرے برطانوی افسروں سے اس وقت شئیر نہیں کئے۔ دہلی کے قتلِ عام کے بعد پشاور کے کمانڈروں نے یہ بل پیش کیا۔ “برٹش خواتین اور بچوں کو دہلی میں مارنے والوں کے لئے پھانسی کی سزا ناکافی ہے۔ ان کو لٹا کر کوڑے مارے جائیں، مصلوب کیا جائے اور جلا دیا جائے۔ لٹکا دینا انصاف نہیں۔ ان پر بدترین تشدد کیا جانا چاہیے تا کہ ہمارے ضمیر سے بوجھ اتر سکے”۔  


اسی طبیعت کے ایک اور افسر ولیم ہوڈسن تھے جو انٹیلی جنس کے بے رحم چیف تھے۔ انہوں نے فوری طور پر جاسوسی کے لئے مولوی رجب علی کو دہلی روانہ کیا۔ رجب کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ وہ ہیڈ منشی کا کام کرتے رہے تھے اور پنجاب میں پولیٹیکل ایجنٹ بھی رہ چکے تھے اور ہنری لارنس کے ساتھ کام کرتے تھے۔


مولوی رجب علی جلد دہلی پہنچے اور مخبروں اور جاسوسوں کا بڑا اور موثر نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہے۔ اس نیٹورک میں ہندو بنئے بھی تھے اور مغل اشرافیہ کے لوگ بھی۔ برٹش راج پسند کرنے والے عام شہری بھی اور انقلابیوں کو ناپسند کرنے والے بھی۔ رجب علی کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنے نیٹ ورک میں اہم ترین انقلابی کمانڈروں کو بھی بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ہریانہ ریجیمنٹ کے بریگیڈ میجر غوری شنکر سوکل جن سے برٹش فوج تک حکمت عملی مسلسل پہنچتی رہی اور دوسرے سپاہی جو نہ صرف معلومات پہنچاتے رہے بلکہ وقت ملنے پر انقلابیوں کے پروگرام میں خلل ڈالتے رہے۔ رجب علی جلد ہی ملکہ عالیہ زینت محل سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بہادر شاہ ظفر کے وزیرِ اعظم حکیم احسن اللہ خان کو ساتھ ملا لیا اور شاہی محل میں پرو برٹش دھڑے کے سربراہ، مرزا فخرو کے سسر اور بہادر شاہ ظفر کے سمدھی مرزا الٰہی بخش کو۔ اس انیٹیلی جنس نیٹ ورک کو قائم کر لینے کی کامیابی جنگ میں بہت اہم رہی۔ ان کے بھیجے گئے نوٹ فقیروں اور سادھووٗں کے بھیس میں ایجنٹ لے کر جاتے تھے اور ان میں سے ہزاروں رقعے ابھی بھی نیشنل آرکائیو آف انڈیا میں محفوظ ہیں۔ یہ بہت چھوٹی لکھائی میں جوتوں یا کپڑوں میں اڑس لئے جاتے تھے۔ ان میں شہر کے حالات، توپوں کی پوزیشن، اسلحے کی صورتحال، سپاہیوں یونٹس کے درمیان اختلافات، اندرونی مسائل بتائے جاتے تھے۔ 


جاسوسوں سے آنے والی انفارمیشن نہ قابلِ اعتبار ہوتی تھی اور نہ ایکوریٹ۔ اکثر انفارمیشن کے دام ادا کرنے والوں کو وہ بتایا جاتا تھا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ لیکن اگلے مہینوں میں اتنی انفارمیشن برٹش تک پہنچتی رہی کہ اس نے اس لڑائی کو طے کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس کے مقابلے میں انقلابیوں کے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا کہ انہیں اپنے مخالفین کے بارے میں کچھ بھی پتا لگتا۔


جون کے پہلے ہفتے میں جی ٹی روڈ سے جنرل ہنری برنارڈ کی قیادت میں تین ہزار فوجی جی ٹی روڈ پر دلی کی طرف رواں دواں تھے۔ ان کے ساتھ پچاس توپیں اور فیلڈ گن تھیں۔ 


ہوڈسن نے پٹھان اور پنجابی رضاکاروں کو کامیابی سے بھرتی کر لیا تھا جو بغاوت کر کے چھوڑ جانے والے ہندوستانی فوجیوں کی جگہ لے چکے تھے۔ نکلسن اور ہوڈسن ملکر پوری قوت سے برٹش غصہ بہادر شاہ کے نئے آزاد ہونے والے دہلی پر اگلنے والے تھے۔ مزید رضاکاروں کی بھرتی جاری تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نئے آزاد ہونے والے دہلی میں حالات اچھے نہ تھے۔ لاء اینڈ آرڈر باقی نہیں رہا تھا۔ لوٹ مار جاری تھی۔ تاوان کے لئے لوگوں کو پکڑا جاتا تھے۔ نئے آنے والے سپاہیوں کی رہائش کی جگہ نہیں تھی۔ بہت سوں نے محل کے دالانوں میں بسیرا جمایا تھا۔ کئی نے لوگوں کی کوٹھیوں میں۔ سپاہیوں اور دہلی والوں کے درمیان چھڑپیں ہوتی تھیں۔ جو کرسچن شہر سے نکلنے سے رہ گئے تھے، اگلے دنوں میں انہیں مارا جاتا رہا۔ دہلی کالج کے پرنسپل فرانسس ٹیلر کی باری بارہ مئی کو آئی تھی۔ لیکن شہر میں کہیں سے متحد نظر نہیں آتا تھا۔ کئی لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر پرانی دشمنیاں نپٹانا شروع کر دی تھیں۔ 


محفوظ میوٹنیی پیپرز میں عام شہریوں کی عرضداشتیں نظر آتی ہیں جو بادشاہ سے بچاوٗ کی درخواست دے رہے تھے۔ ان میں خاص طور پر شہر کے عام لوگ تھے جن کے پاس حفاظت کے لئے مسلح گارڈ یا حویلیاں یا اونچی دیواریں نہیں تھیں۔ غریب لوگ، خاص طور پر کشن گنج اور نظام الدین میں ان جرائم سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ پہاڑ گنج اور جے سنگھ پورہ کے لوگ شاہی محل دہائی دینے پہنچے تھے کہ “تلنگے ہماری چارپائیاں، برتن اور آگ جلانے والی لکڑیاں تک اٹھا کر لے گئے ہیں”۔ ایک اور وفد تاجروں کا آیا تھا کہ ان کے سٹاک اٹھا لئے گئے ہیں۔ 


شہر سے باہر صورتحال زیادہ بری تھی۔ برٹش پولیس سسٹم نے امن قائم کیا تھا، وہ ختم ہو گیا تھا۔ گوجر اور میواتی قبائل کے نیم خانہ بدوش لوگوں کو لوٹنے کے لئے پھر رہے تھے۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر نے الور کے راجا کو مدد طلب کرنے جو ہرکارے بھیجے، وہ گجروں کے ہاتھوں اپنے گھوڑے، پیسے اور کپڑے تک گنوا کر واپس پہنچے تھے۔ بادشاہ کے خط کے پرزے کر کے ان کے ہاتھ میں پکڑا دئے گئے تھے۔


ان گھومتے پھرتے لٹیروں نے دہلی کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برٹش دہلی کا محاصرہ نہیں کر سکے تھے جبکہ لٹیروں نے عملی طور پر شہر کی سپلائی کاٹ دی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہادر شاہ ظفر نے اپنا چاندی کا تخت نکلوا کر قلعی کروا کر دیوانِ خاص میں لگوایا تھا۔ یہ تخت پندرہ سال سے سٹور میں پڑا تھا۔ ہاتھی پر سوار امن و امان قائم کرنے کی اپیل کرنے ہات شہر میں نکلے۔ شہزادہ مرزا مغل خود تمام پولیس سٹیشنوں پر گئے اور حکم جاری کروایا کہ جو کوئی لوٹ مار کرتے پکڑا گیا، اس کے ناک اور کان کاٹ دئے جائیں گے”۔


اس شام کو عام دربار لگایا اور خوبصورت زبان میں فارسی روبکاری جاری کی جس نے سپاہیوں کے تمام صوبیداروں کو کہا گیا کہ وہ اپنے آدمیوں کو کنٹرول کریں۔ افسروں نے احترام سے یہ سنا لیکن ایک گھنٹے کے اندر اندر دربار میں ہنگامہ برپا تھا۔ سپاہی شکایت کر رہے تھے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور دکاندار اپنے دکانیں کھول نہیں رہے۔ بادشاہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں۔


جلد ہی یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر جنگ کے لیڈر کے طور پر موزوں نہیں۔ بیاسی سال کی عمر میں ان کے پاس وہ توانائی، ولولہ، جوش و جذبہ نہیں تھا جو انقلاب کے منہ زور شیر پر سواری کے لئے درکار ہوتا ہے۔ 


 وہ اپنے دیوانِ عام کو سپاہیوں کی رہائش بنانے سے اور انہیں محل کے زنانے میں تاک جھانک کرنے سے بھی نہیں روک سک رہے تھے۔ انہوں نے سپاہیوں کے گھوڑوں کو اپنے پسندیدہ باغوں سے ہٹوانے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں رہی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تیرہ مئی کو ظفر نے شہر میں امن و امان لانے کے لئے پھر کوشش کی۔ شہر میں کئی جگہ لگائی گئی آگ سلگ رہی تھی۔ کوتوال سے دو سے تین سو سقوں کو انہیں بجھانے کا حکم جاری کیا۔ روز دہلی میں تین سے چار سو نئے سپاہی پہنچ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہندوستان بھر سے سات سے آٹھ ہزار سپاہی دہلی میں جمع ہو گئے تھے۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں،
“سپاہی آسائش میں رہ رہے تھے، بہت سے بھنگ پیتے رہتے، لڈو پیڑے، پوریاں، کچوریاں اور مٹھائیاں کھاتے اور چین کی نیند سوتے۔ دہلی ان کے پاس تھا اور جو چاہے کرتے۔ اندھیر نگری، چوپٹ راج تھا۔ عام لوگ اس سب سے جلد ہی تنگ آ چکے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ خدا اس سے نجات دلوائے اور حکومت واپس بحال ہو۔ باغی سپاہی اور شہر کے بدمعاش روز لوٹ مار کرتے امیر ہو رہے تھے۔ کچھ کے پاس تو لوٹا مال کہیں رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی تھی۔ عام لوگ فاقہ زدگی کا شکار تھے۔ روزگار ختم ہو گیا تھا اور کاروبار بند پڑے تھے”۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہادر شاہ ظفر کو ظلِ الٰہی، شہنشاہِ عالم، خلفیہ وقت، بادشاہوں کا بادشاہ، سلطانوں کا سلطان کہا جاتا۔ صادق الاخبار کے مطابق، “ہم خدا کے شکرگزار ہیں کہ اس نے ظالموں سے نجات دلوائی اور ظلِ الٰہی کو بحال کروایا”۔ اس لاقانونیت اور انارکی کے پسِ منظر میں مغل دربار نے، اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ، ایک مرکزی اور سیاسی اہمیت کا کردار سنبھالا۔ 1739 کے بعد سے، جب نادر شاہ نے دہلی کو اجاڑا تھا، پہلی بار روزانہ دربار لگنے لگا۔ 


لیکن شاہی خاندان خود منقسم تھا۔ 


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ساتھ لگی تصویر 1770 میں دہلی لال قلعے کی ہے۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 11: مکڑی کا جال

 _*مغلیہ زوال 11*_


_*مکڑی کا جال*_


دہلی سے شمال میں کیپٹن رابرٹ ٹٹلر دہلی میں ہو جانے والے واقعات سے بے خبر اپنے 200 سپاہیوں کو کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ فوج میں کچھ گڑبڑ تو چل رہی ہے لیکن کس حد تک؟ اس کا علم نہیں تھا۔ دہلی میں اور دہلی کے باہر برٹش راج تیزی سے ختم ہو رہا تھا۔ ٹٹلر کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے سپاہی میرٹھ والوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس روز اسلحہ ڈپو میں ہر کوئی معمول سے زیادہ اسلحہ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے اور کیپٹن گارڈنر نے نوٹ کیا کہ سپاہی عمارت سے دور کھڑے ہیں۔ جب انہیں قریب آنے کو کہا تھا سپاہیوں نے جواب دیا کہ انہیں دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ جب انہیں سختی سے آرڈر دیا تو ایک سپاہی نے جواب دیا کہ آپ کی سرکار ختم ہو گئی ہے۔ برٹش راج کا دور گزر گیا ہے۔ پھر سب نے ملکر نعرے لگانے شروع کر دئے، “پرتھوی راج کی جے ہو”۔ سپاہیوں کی بڑی تعداد انہیں چھوڑ کر اور اسلحہ لے کر چلی گئی۔ ان کے ساتھ چند درجن فوجی رہ گئے جو زیادہ عمر کے تھے اور افغانستان کی جنگ رابرٹ ٹٹلر کے ساتھ اکٹھے لڑی تھی۔  

مغلیہ زوال قسط نمبر 11


یہ کئی جگہ پر دہرایا جا رہا تھا۔ کئی یونٹس میں سپاہی افسروں کو سلیوٹ کرنے کے بعد الوداع کر کے جا رہے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


افطار کے وقت دہلی کی گلیاں سنسان ہو گئیں۔ ظہیر دہلوی جو شاہی محل سے واپس آ رہے تھے، کہتے ہیں، “ شہر میں خاموشی تھی اور عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ گھروں اور حویلیوں کے دروازے مقفل تھے۔ روشنی کسی جگہ پر نہیں تھی۔ سڑک کے لالٹین ٹوٹے ہوئے اور ان کے شیشے بکھرے پڑے تھے۔ چاقو بنانے والوں، حلوائی اور بزازوں کی دکانیں لوٹ لی گئی تھیں۔ ایک جگہ پر ایک شخص قریب المرگ کراہ رہا تھا۔ اسے تلواروں کے تین گھاوٗ لگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ مجھے تین لوگ نظر آئے جنہوں نے ایک دھوبی کو روکا ہوا تھا۔ وہ اس کے سامان کی تلاشی لے رہے تھے کہ کوئی قیمتی شے مل جائے۔ دھوبی نے انہیں بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک فرنگی کا گھر ہے۔ جلدی پہنچو، مال کوئی اور نہ لے جائے اور یوں دھوبی نے ان سے جان چھڑوائی”۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بارہ مئی کو دہلی برٹش سے تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ 1803 کو برٹش نے مرہٹوں کو شکست دی تھی، تب سے دہلی برٹش کنٹرول میں تھا۔ ایک روز میں یہ ختم ہو گیا تھا۔ 


بہادر شاہ ظفر نے نہ یہ انقلاب پلان کیا تھا اور نہ ہی یہ سب ان کے وہم و گمان میں تھا اور نہ ہی یہ سپاہی ان کے کنٹرول میں تھے اور نہ ہی ان کے پرتشدد طریقوں سے اتفاق کرتے تھے۔ لیکن وہ پوری طرح سے ان کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔ موہن لال کاشمیری لکھتے ہیں۔

 “باغی اب شہر کے اور محل کے بھی مالک تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو زور دیا کہ وہ شہر کا دورہ کریں تا کہ سب کا اعتماد بحال ہو۔ بادشاہ نے پہلی بار یہ دیکھا تھا کہ تربیت یافتہ سپاہی ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے شہریوں کو دیکھا جو انہیں دیکھنے امڈ آئے تھے۔ اداس اور معمول کے چہروں کے ساتھ نہیں، نعرے لگاتے ہوئے۔ یہ تبدیلی پہلے روز شہر میں اکثریت کو پسند آئی تھی۔ بادشاہ نے برٹش ناکامیوں کی خبریں سنیں۔ انہوں نے جھوٹی خبریں بھی سنیں کہ برٹش فوج فارس میں پھنس چکی ہے۔ اور یہ کہ یورپ میں سیاسی حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور ہندستان میں کوئی کمک نہیں آ سکے گی۔ انہیں بتایا گیا کہ ممبئی اور دکن میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ بہادر شاہ ظفر اب یقین کر چکے تھے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں عظیم تیموری خاندان کے تاج اور سلطنت کی بحالی ان کے ہاتھوں ہونا ہے”۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


برٹش انڈیا میں پہلے بھی بغاوتیں ہوئی تھیں۔ سب سے بڑی ویلور میں 1806 میں۔ کئی جگہوں پر مسلح مزاحمتیں ہوئی تھیں۔ لیکن تمام برٹش دور میں برٹش سپریمیسی کو اتنا بڑا چیلنج کبھی نہیں آیا۔


کمپنی کے تربیت یافتہ فوجی اور مغلوں کی تعظیم ۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ دینے کے فیصلے نے اس کو انیسویں صدی میں کسی بھی مغربی یورپی ملک کو درپیش سب سے بڑے امتحان میں بدل دیا تھا۔ لیکن بادشاہ کے لئے جو سوال فوری تھا کہ کیا وہ واقعی کنٹرول میں ہیں؟ یا انہوں نے صرف اپنی ڈوریاں ہلانے والے بدلے ہیں؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دہلی میں انقلاب کے دن دو ٹیلی گراف آپریٹروں، برینڈش اور پلکنگٹن نے دفتر بند کیا اور دہلی چھوڑ کر میرٹھ کی راہ لی لیکن جانے سے پہلے انہوں نے دو پیغامات بھجوائے۔ ان کا اوریجنل اس وقت لاہور میں پنجاب آرکائیو میں محفوظ ہے۔ پہلا “کینٹونمنٹ محاصرے کی حالت میں” کے عنوان سے ہے جو دوپہر کو بھیجا گیا۔ اس میں لکھا ہے۔

“میرٹھ کی تھرڈ لائٹ انفینٹری کے باغیوں نے میرٹھ سے رابطہ کاٹ دیا ہے۔ ان بلوائیوں کی تعداد نامعلوم ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب بتائی جا رہے ہے۔ یہ کشتیوں کے پل پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ 54ویں نارتھ انفینٹری کو ان سے لڑنے بھیجا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ کئی افسر مارے جا چکے ہیں، کئی زخمی ہیں۔ شہر میں نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے۔ کچھ فوجی بھجوائے گئے ہیں لیکن ابھی حالات غیریقینی ہیں”


دوسرا پیغام اس سے پہلے بھیجا گیا جب یہ دونوں دفتر چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔

“میرٹھ کے سپاہیوں نے سارے بنگلے جلا دئے ہیں۔ وہ صبح یہاں پہنچے تھے۔ ہم یہاں سے اب جانے والے ہیں۔ چارلس ٹوڈ (جو پیغام بھیجنے والوں کے افسر تھے) کو مار دیا گیا ہے۔ وہ صبح نکلے تھے اور واپس نہیں آئے”۔


یہ ٹیلی گراف کی نئی ٹیکنالوجی کا کارنامہ تھا۔ وہ، جسے غالب اس دور کا معجزہ کہتے تھے۔ یہ پیغام انبالہ بھیجا گیا اور چند گھنٹوں میں لاہور، پشاور اور شملہ تک پہنچ چکا تھا۔   


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کمانڈر انچیف جنرل جارج اینسن کو یہ پیغام ملا تو وہ شملہ میں تھے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی ویسے ہی جیسے گولیوں پر چکنائی کے معاملے کو نہیں دی تھی۔ چار دن بعد انبالہ پہنچے تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت ہیضے کی وبا بھی پھیلی ہوئی تھی۔ جب 27 مئی کو برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف جرنل اینسن کا انتقال ہیضے کی وجہ سے ہوا تو انقلاب کی یہ لہر بڑھ چکی تھی۔ نوشہرہ، انبالہ، لدھیانہ، فیروزپور، نصیر آباد، ہانسی، مراد آباد، علی گڑھ، آگرہ، مین پوری، ایتاوا، اور آگرہ کے بھی مشرق سے سپاہیوں کے بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں۔ 


نقشے میں یہ مقامات دہلی کے گرد دائرے کی شکل میں نظر آتے تھے۔ جو ہندوستان میں دور دراز تک پھیلے تھے۔ بہادر شاہ اور ان کی مغلیہ سلطنت اب امید کا مرکز تھے۔ بہت سے افراد، گروہ اور بہت سی وجوہات۔ مسلمان بھی، ہندو بھی۔ شمالی انڈیا میں سپاہی اپنے یونٹ کو چھوڑ کر سیدھا دہلی کا رخ کرتے۔ کئی جگہ پرتشدد طریقے سے، قتل و غارت کرتے اور کئی بار افسروں سے معذرت کرتے ہوئے۔ 


کمانڈر رچرڈ بارٹنر نے نقشے پر یہ پیٹرن دیکھتے ہوئے کہا کہ “بغاوت کا یہ نقشہ مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ اس کا مرکز دہلی ہے اور اس کے بیچوں بیچ پر جو مکڑا بیٹھا ہے، وہ بہادر شاہ ظفر ہے”۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر میں بغاوت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ 

ہلکے نیلے میں وہ علاقے جہاں پر مقامی حکمران ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقاعدہ طور پر مدد کی 

گاڑھے نیلے میں وہ علاقے جہاں کے حکمران کمپنی کے وفادار رہے۔

سیاہ میں وہ علاقے جہاں کے حکمرانوں نے بغاوت میں حصہ لیا۔ 

سبز میں وہ، جہاں کے حکمران غیرجانبدار تھے۔ 

بھورے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی لیکن بغاوت میں عملداری ختم ہو گئی۔

پیلے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی اور یہاں پر موثر بغاوت نہیں ہوئی۔

قلعہ دراوڑ یا ڈیراور؟ صحرائے چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا

 _*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_



_*🏜قلعہ دراوڑ یا ڈیراور؟ صحرائے چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا😳*_


_*بشکریہ بی بی سی اردو*_


*برصغیر میں وہ* سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنا شجرہ نسب عرب کے عباسی خلفا سے چلنے کے دعویدار ہیں۔


بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔


 18ویں صدی کے اوائل سے قریباً ڈھائی صدیوں تک یہاں کے حکمران رہنے والے عباسی خاندان نے ایک طرف دارالخلافہ بہاولپور میں پُرآسائش محلات اور باغات تعمیر کیے تو دوسری طرف کالج، ہسپتال، سٹیڈیم، تفریحی مقامات اور لائبریریاں بھی بنوائیں۔


ان کی تعمیرات میں کئی آج بھی بہاولپور شہر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے اُن اوراق کی مانند ہیں جن سے کئی کہانیاں اور یادیں عبارت ہیں۔


ایسا ہی ایک ورق پلٹیں تو آپ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں قلعہ ڈیراور پہنچتے ہیں۔ سڑک پکی مگر تنگ ہے ،اس لیے مسافت لگ بھگ دو گھنٹے کی ہے۔


عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی، جو اب اس قلعے کے نگہبان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام قلعہ ڈیراور ہے اور اپنی کتاب میں انھوں نے یہی نام استعمال کیا ہے۔


آپ سفر صبح سویرے شروع کریں۔ موسم سرما کی نکھری دھوپ میں صحرائے چولستان کا الگ ہی حسن ہے۔ قلعہ ڈیراور یوں تو کسی بھی دوسرے قلعے کی طرح ہی ہے لیکن میلوں دور ہی سے یہ آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔

  

اونچی دیواریں اور ان میں نصب ٹھوس لوہے سے بنا اس قدر اونچا اور چوڑا مرکزی دروازہ کہ ہاتھی اس میں سے با آسانی گزر جائے۔ ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔


اس کے بالکل سامنے دلی کی مسجد کی طرز پر بنی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہے۔


_*ڈیراور آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا*_


تاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ ڈیراور میں بھی یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو پیچھے لے جائے اور واپس لوٹنے میں آپ کا پورا دن گزر سکتا ہے۔


قلعے کی جانب بڑھیں تو مسجد کے عقب میں بنے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے آپ پیچ کھاتی اس کشادہ گزرگاہ پر پہنچتے ہیں جو آپ کو قلعے کے اندر لے کر جاتی ہے۔ اسے کبھی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہو گا۔


قلعے کے اندر داخل ہونے سے قبل پہلا سوال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس کے باہر بسنے والے لوگ کون ہوں گے، کیسے رہتے تھے اور ان کا کیا ہوا؟


قلعہ ڈیراور آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کی آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

انھوں نے قلعہ کی تاریخ پر کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ ہم نے ان کے سامنے یہی سوال رکھا۔ قمرالزماں عباسی کے مطابق قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک دریا گزرتا تھا جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھا۔


_*’ہندو، سکھ، مسلمان سب میں میل ملاپ تھا‘*_


قلعے کے باہر آباد لوگوں میں مسلمان بھی تھے، ہندو اور سکھ بھی مگر ان میں ایسا میل ملاپ تھا کہ مذہب کی تفریق کا معلوم ہی نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان اور ہندو سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔


قمرالزماں کے مطابق ہندو عہد میں ڈیراور کی آبادی بقدرِ ضرورت فوجی سپاہیوں تک محدود رہی۔ عباسی فرمانرواؤں کے دور میں اس میں اضافہ ہوا۔


’جب تک اس کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل رہی قلعہ کے باہر بازار اور امرا و اراکینِ سلطنت کے مکانات واقع تھے۔‘


زیادہ تر آبادی قلعے کے مغربی جانب تھی جس میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر تھے۔ قلعے کے مشرقی جانب بارانی پانی کے جمع کرنے کے لیے تالاب اور کنویں بنائے گئے تھے۔


_*اندر اور باہر دو مختلف مناظر*_


مرکزی دراوزے سے قلعے کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں ایک توپ کھڑی ہے۔ سامنے جو عمارت نظر آتی ہے وہ غالباً بارہ دری تھی جو محل کے بیرونی حصے میں واقع تھی۔


اس کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دری میں کھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کی ٹائیلوں اور پتھر پر کشیدہ کاری کے ذریعے آرائش کی گئی تھی۔ انتہائی بوسیدگی کی حالت میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔


اندر موجود تعمیرات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہ قلعہ کی باہر سے ظاہر شان و شوکت کے بالکل مختلف ہے۔

قلعہ کی نگرانی پر شاہی خاندان کی طرف سے لوگ معمور کیے گئے ہیں۔

 سیاحت کے لیے آنے والے افراد سے وہ معمولی سے فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں سے آئے سیاح ان بوسیدہ در و دیوار کے ساتھ وقت بیتاتے ہیں۔


آپ کی طرح وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ قلعہ میں موجود کون سی عمارت کیا تھی اور یہاں کے مکین کون تھے؟


_*یہ سرنگوں کی کیا کہانی ہے؟*_


مرکزی محل کے مشرقی سمت فوجیوں کے لیے بیرکیں اور گودام وغیرہ بنائے گئے تھے۔ یہیں ایک جیل بھی نظر آتی ہے۔


مغربی سمت ایک چبوترے سے سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں۔ اس کے مقام کے علاوہ بھی قلعے کی عمارتوں میں ایسے کئی مقامات موجود تھے جہاں زیرِ زمین سرنگوں کو راستے جاتے تھے۔ اب وہ مٹی سے بند ہو چکے ہیں شاید آپ نہ دیکھ پائیں۔


کہا جاتا ہے کہ قلعے میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال موجود تھا۔ اس میں ریل کی پٹڑیاں کچھ عرصہ پہلے تک دیکھی بھی جا سکتی تھیں۔ خیال ہے کہ ان کے ذریعے قلعے کے اندر اور باہر خفیہ رہ کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی سرنگ غالباً دلی تک بھی جاتی تھی۔

مگر صاحب قمرالزماں کے مطابق اس کی تصدیق مشکل ہے۔


’اس بارے میں ابھی کسی کو علم نہیں۔ نہ کبھی کسی نے کھدائی کروائی اور نہ کسی نے دیکھا۔ خود نواب صاحب نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘


40 کلومیٹر طویل انسانی قطار سے اینٹوں کی آمد

بارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہے۔


رہائش گاہوں تک پہنچنے سے قبل ایک چبوترا نما عمارت نظر آتی ہے اس کے ایک طرف برآمدوں کے پیچھے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان برآمدوں کے ستونوں سے اینٹیں اس حد تک نکل چکی ہیں کہ یوں لگتا ہے کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائیں گے۔


جو اینٹیں قلعہ میں ہر جانب لاکھوں کی تعداد میں بکھری نظر آتی ہیں، قمرالزماں کے مطابق انھیں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچایا گیا تھا۔

قلعے پر قبضے کے وقت اس کی بیرونی دیواریں کچی تھیں۔ ان کی اینٹوں سے چنوائی عباسی دور میں کروائی گئی۔


قمرالزماں کے مطابق اس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھیں۔


’ایک ہاتھ سے دوسرے تک دے دے کر اینٹیں یہاں تک پہنچتی تھیں اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی تھیں۔‘


_*کیا ڈیراور میں نواب رہائش پذیر ہوئے؟*_


قلعہ کے طرزِ تعمیر واضع ہے کہ نوابین یہاں سکونت اختیار کیے رہے۔ قمرالزمان کے مطابق بہاولپور منتقل ہونے سے قبل تین نواب قلعہ ڈیراور میں رہائش پذیر رہے ہیں۔


انھوں نے آخری بار قلعہ کو سنہ 1955 میں نواب سر صادق محمد عباسی کے دور میں آباد دیکھا ہے جب قلعہ کے اندر 250 فوجی محافظ جبکہ باہر سو کے قریب سویلین رہتے تھے۔


’قلعے کے باہر چھاؤنی تھی۔ فوج کی خاکی وردی اور ٹوپی ہوتی تھی۔ نواب صاحب جمعہ کو ڈیراور آتے تھے، چار دیگیں چاول کی پکائی جاتی تھیں اور لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔‘


قلعہ کے اندر نواب صاحب کے آباؤ اجداد کے مزارات میں تین قبریں ہیں۔ وہ ان پر حاضری دیتے تھے۔ جن دنوں وہ آیا کرتے تھے ڈیراور کی آبادی 600 گھرانوں کے لگ بھگ تھی، اب 250 کے قریب رہ چکی ہے۔


_*دو منزلہ چبوترا کس کا تھا؟*_


محل کے وسط میں ایک چبوترا نما کمرہ آپ کی نظر سے چھپ نہیں سکتا کیونکہ اس کی دو منزلیں ہیں۔


قمرالزماں کے مطابق یہ نواب صاحب کی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ وہ خود اوپری منزل میں رہتے تھے اور نیچے فوجی تعینات ہوتے تھے۔


محل کے ایک حصے میں وہ مقام موجود ہے جہاں ہر نئے بننے والے نواب کی دستار بندی کی جاتی تھی۔


قمرالزماں کے مطابق روایت یہ ہے کہ اس موقع پر نئے نواب کی تاج پوشی اسی رسی سے کی جاتی ہے جو نواب بہاول خاں کو کسی بزرگ نے اس وقت دی تھی جب وہ ڈیراور کو فتح کرنے آ رہے تھے۔


_*قلعہ ڈیراور تھا کس کا؟*_


عباسی خاندان کے پاس قلعہ ڈیراور قریباً تین دہائیوں سے ہے۔ تو اس سے پہلے یہ کس کے پاس تھا اور کس نے تعمیر کروایا؟ اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں۔


تاہم قمرالزماں کے مطابق جب عباسی داؤد پوتروں نے چولستان سے بہاولپور میں اقتدار سنبھالا تو ڈیراور سمیت چولستان کے قلعے جیسلمیر کے راجہ کے تسلط میں تھے۔


یہ سنسان جگہ پر واقع تھا اور اس کے چاروں اطراف 18 میل تک آبادی نہیں تھی۔ اس تک پہنچنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ احمد پور شرقیہ سے اونٹوں اور گدھوں پر پھل اور سبزی ترکاری لائی جاتی تھی جو تیسرے روز پہنچتی تھی۔


تاہم اپنے مقام وقوع کے اعتبار سے یہ قلعہ عباسیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ تاہم جب بہاولپور میں محلات تعمیر ہو گئے تو وہ وہاں منتقل ہو گئے۔ یہاں سے نکل کر آپ ان محلات میں سے کم از کم نور محل تک جا سکتے ہیں۔


اسے دیکھ آپ کو ڈیراور قلعہ کے اندر کی زندگی کے بارے میں مزید بہتر جان کاری ہو گی۔

Wednesday, July 26, 2023

ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات

 *ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات*

             

*1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو،* 

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83


*2  غصے کو قابو میں رکھو*

سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134


*3  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،*

سورۃ القصص، آیت نمبر 77


*4  تکبر نہ کرو،* 

سورۃ النحل، آیت نمبر 23 


*5  دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو،* 

سورۃ النور، آیت نمبر 22


*6  لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو،* 

سورۃ لقمان، آیت نمبر 19


*7  اپنی آواز نیچی رکھا کرو،*

سورۃ لقمان، آیت نمبر 19


*8  دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11


*9  والدین کی خدمت کیا کرو،*

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23


*‏10  والدین سے اف تک نہ کرو،*

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23


*11  والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،*  

سورۃ النور، آیت نمبر 58


*12  لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،*  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282


*13  کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،*  

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36


*14  اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،*

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280


*15  سود نہ کھاؤ،*  

سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278


*16  رشوت نہ لو،*  

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42


*17  وعدہ نہ توڑو،*  

سورۃ الرعد، آیت نمبر 20


*‏18  دوسروں پر اعتماد کیا کرو،*

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


*19  سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،*  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42


*20  لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،*  

سورۃ ص، آیت نمبر 26

*21  انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،*  

سورۃ النساء، آیت نمبر 135


*22  مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 8


*23  خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 7


*24  یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 2


*‏25  یتیموں کی حفاظت کرو،*

سورۃ النساء، آیت نمبر 127 


*26  دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 6


*27  لوگوں کے درمیان صلح کراؤ،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10


*28  بدگمانی سے بچو،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


*29  غیبت نہ کرو،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


*30  جاسوسی نہ کرو،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12


*31  خیرات کیا کرو،* 

سورۃ البقرة، آیت نمبر 271


*32  غرباء کو کھانا کھلایا کرو*

سورة المدثر، آیت نمبر 44


*33  ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو،* 

سورة البقرۃ، آیت نمبر 273


*34  فضول خرچی نہ کیا کرو،*

سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67


*‏35  خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،*

سورة البقرۃ، آیت 262


*36  مہمانوں کی عزت کیا کرو،*

سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27


*37  نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،*  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44


*38  زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو،* 

سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36


*39  لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو،* 

سورة البقرة، آیت نمبر 114


*40  صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں،* 

سورة البقرة، آیت نمبر 190


*41  جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو،* 

سورة البقرة، آیت نمبر 190


*‏42  جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ،* 

سورة الأنفال، آیت نمبر 15


*43  مذہب میں کوئی سختی نہیں،*

سورة البقرة، آیت نمبر 256


*44  تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،*

سورۃ النساء، آیت نمبر 150


*45  حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو،* 

سورة البقرة، آیت نمبر، 222


*46  بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ،* 

سورة البقرة، آیت نمبر، 233


*47  جنسی بدکاری سے بچو،*

سورة الأسراء، آیت نمبر 32


*48  حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،*  

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247


*49  کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو،* 

سورة البقرة، آیت نمبر 286


*50  منافقت سے بچو،* 

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  14-16


*‏51  کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو،* 

سورة آل عمران، آیت نمبر 190


*52  عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے،* 

سورة آل عمران، آیت نمبر 195


*53  بعض رشتہ داروں سے  شادی حرام ہے،*  

سورۃ النساء، آیت نمبر 23


*54  مرد خاندان کا سربراہ ہے،*

سورۃ النساء، آیت نمبر 34


*55  بخیل نہ بنو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر  37


*56  حسد نہ کرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 54


*57  ایک دوسرے کو قتل نہ کرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر  29


*58  فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر  135


*‏59  گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،*

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  2


*60  نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2


*61  اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  100


*62  صحیح راستے پر رہو،* 

سورۃ الانعام، آیت نمبر  153


*63  جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  38


*64  گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو،* 

سورۃ الانفال، آیت نمبر  39


*65  مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3


*‏66  شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90


*67  جوا نہ کھیلو،* 

سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90


*68  ہیرا پھیری نہ کرو،* 

سورۃ الاحزاب، آیت نمبر  70


*69  چغلی نہ کھاؤ،* 

سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر  1


*70  کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو،* 

سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31


*71  نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو،* 

سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31


*72  آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو،* 

سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  6


*73  طہارت قائم رکھو،* 

سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  108


*74  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،*  

سورۃ الحجر، آیت نمبر  56


*‏75  اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر  17


*76  لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ،* 

سورۃ النحل، آیت نمبر  125


*77  کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،*

سورۃ فاطر، آیت نمبر  18


*78  غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو،* 

سورۃ النحل، آیت نمبر  31


*79  جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،*

سورۃ النحل، آیت نمبر  36


*‏80  کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر  12


*81  اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو،* 

سورۃ النور، آیت نمبر 27


*82  اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے،* 

سورۃ یونس، آیت نمبر 103


*83  زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو،* 

سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63


*84  اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔* 

سورة توبہ، آیت نمبر 105


*85  اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،* 

سورۃ الکہف، آیت نمبر  110 


*‏86  ہم جنس پرستی میں نہ پڑو،* 

سورۃ النمل، آیت نمبر 55


*‏87  حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو،* 

سورۃ توبہ، آیت نمبر 119


*88  زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،*

سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37


*89  عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں،* 

سورۃ النور، آیت نمبر 31


*90  اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے،* 

سورۃ النساء، آیت نمبر 48


*91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو،* 

سورۃ زمر، آیت نمبر  53


*92  برائی کو اچھائی سے ختم کرو،* 

سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34


*93  فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو،* 

سورۃ الشوری، آیت نمبر 38


*‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،* 

سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13


*95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔* 

سورۃ الحدید، آیت نمبر 27


*96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے،* 

سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11


*97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ،* 

سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8


*98 خود کو لالچ سے بچاؤ،*

سورۃ النساء، آیت نمبر 32


*99  اللہ سے معافی مانگو  وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ،* 

سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  199


*100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو،* 

سورۃ الضحی، آیت نمبر  10

مغلیہ زوال قسط نمبر 10: تلوار کی کاٹ

 _*مغلیہ زوال 10*_


_*تلوار کی کاٹ*_


سوموار کا دن تھا۔ عیسوی کیلنڈر میں 11 مئی 1857 جبکہ ہجری کیلنڈر میں سولہ رمضان۔ دہلی میں رمضان میں شہر کی زندگی بدل جایا کرتی تھی۔ دہلی کی بدترین گرمی کا دن تھا۔ دہلی کے مسلمان خاندان سحری سویوں سے کرنا پسند کرتے تھے اور سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان لال قلعے سے توپ سے فائر کئے جانے والے گولے سے ہوا کرتا تھا۔

مغل دور


صبح سات بجے بہادر شاہ ظفر لاٹھی کا سہارا لئے تسبیح خانے سے دریا کا نظارہ کر رہے تھے کہ انہیں جمنا کے پاس دھواں اٹھتا نظر آیا۔ انہوں نے پالکی بردار کو آواز دی کہ وہ فٹافٹ جا کر معلوم کریں کہ ماجرا کیا ہے۔ جلد ہی خبر مل گئی کہ یہ انقلابی تھے جنہوں نے دریا پر محصول چونگی کو آگ لگا دی تھی۔ سب سے پہلے مارے جانے والوں میں چونگی لینے والے اور پھر ٹیلی گراف آفس کے مینجیر چارلس ٹوڈ تھے جو پتا لگانے اس جانب گئے تھے۔ ظفر نے حکم دیا کہ شہر کے دروازے بند کر دئے جائیں اور اگر دیر نہیں ہو گئی تو پل توڑ دیا جائے۔

لیکن پانچ سو سوار شہر کے اندر پہنچ چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھیو میٹکاف کی اس روز چھ ماہ کی چھٹی شروع ہو رہی تھی جو انہوں نے کشمیر میں گزارنی تھی۔ اس روز مرنے والوں میں وہ شامل نہیں تھے۔ اور چھپ کر شہر سے بھاگ کر جان بچا لی تھی۔ فریزر، پادری جیننگز اور دو مشہور کنورٹ سمیت اس روز کسی کو نہیں بخشا گیا۔ اس بغاوت میں انگریز مسلمانوں کو نہیں چھیڑا۔ عبداللہ بیگ ایک برٹش تھے جو مسلمان ہوئے تھے، نہ صرف انہیں کچھ کہا نہیں گیا بلکہ وہ اس میں انقلابیوں کا ساتھ دیتے رہے۔ سارجنٹ میجر گورڈن، چونکہ مسلمان ہو چکے تھے، انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔

انقلابیوں کی حمایت طبقاتی بنیادوں پر بھی تھی۔ مزدور اور کپڑا ساز اس کے پرجوش حامی رہے۔ دہلی کی اشرافیہ منقسم تھی۔ عبدالطیف کا کہنا تھا کہ “تمام مذہبی تعلیمات کو نظر انداز کیا گیا۔ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا”۔ غالب نے اپنی ناپسندیدگی لکھی، “مجھے ان بچوں پر ترس آتا ہے جو خون کے سمندر کے بھنور کا حصہ بن گئے”۔

ظہیر دہلوی لکھتے ہیں، “کرتے اور دھوتیوں میں ملبوس تین چار افراد کو دیکھا۔ تلواریں اڑسی ہوئی، پیپل کے درخت تلے کھڑے پوریاں اور مٹھائی کھا رہے تھے۔ میں آگے چل دیا۔ یہاں پر ایک بڑا پہلوان نما شخص نظر آیا جس نے بڑی لاٹھی کاندھے پر اٹھا رکھی تھی اوراس کے پیچھے بھی ویسے ہی حلیے والے کئی لوگ تھے۔ یہ سب دیکھنے میں بدمعاش لگ رہے تھے۔ انہوں نے شہر کی مشعلیں ڈنڈے مار کر توڑ دیں۔ ایک نے ہنس کر دوسرے کو بتایا کہ میں نے ابھی ایک کافر مارا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کپڑے کی دکان کا تالا توڑا اور میں وہاں سے بھاگ گیا۔ کوتوالی کے قریب دکانیں لوٹی جا رہی تھیں۔ بینک لوٹ لیا گیا۔ برسفورڈ کے خاندان کو عورتوں اور بچوں سمیت مار دیا۔ دہلی کے لفنگے، چمار، دھوبی، نائی، قصائی، کاغذی گلی سے کاغذ بنانے والے، جیب کترے، پہلوان اور بدمعاش بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ شہر کے شرفاء گھروں میں تالے لگا کر بیٹھے تھے۔ کسی کو نہیں پتا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ ایک گھنٹے میں چودہ لاکھ روپیہ لوٹا گیا ہو گا۔ چاندنی چوک کے پاس فساد چل رہا تھا۔ خون دریا کی طرح بہہ رہا تھا۔ محل کے دروازے کے قریب پچاس سوار نظر آئے۔ انگریزی کی کتابیں پھاڑ کر صفحے اڑا رہے تھے”۔

کچھ کو لوٹا گیا کہ وہ برٹش حکومت کے ساتھ تھے۔ کچھ کو اس لئے کہ وہ امیر تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دہلی اردو اخبار میں محمد باقر نے خبر لگائی کہ “یہ انگریز پر خدا کا قہر نازل ہوا ہے۔ جب انقلابی سپاہی یہاں آ رہے تھے تو کہتے ہیں کہ ان کے آگے اونٹنیاں تھیں جس میں سبزپوش سوار تھے۔ یہ غیبی مدد تھی۔ انہیں جہاں انگریز ملے، ان کو قتل کیا۔ بے شک اللہ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ ان پر اتنی کاری ضرب اسی گناہ کا نتیجہ ہے”۔

شام تک دہلی شہر میں رہنے والے برٹش کا بڑے پیمانے پر صفایا ہو چکا تھا۔ یا موت کے گھاٹ اتارے جا چکے تھے یا دہلی چھوڑ چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہی محل کے لئے یہ بیرونی حملہ آور تھے۔ اس سے پہلے جب لال قلعے میں اس طریقے سے بغیر اجازت کوئی مسلح گروہ داخل ہوا تھا، وہ غلام قادر رہیلہ تھے جنہوں نے اس طریقے سے دہلی میں گھس کر 1783 میں مغل بادشاہ کو باندھ کر ان کی آنکھیں نکال دی تھیں۔ بہادر شاہ ظفر اس وقت آٹھ برس کے تھے۔ اور اب باہر سے آنے والے سینکڑوں سپاہی بغیر جوتے اتارے شاہی محل میں پھر رہے تھے۔ اپنے گھوڑے بادشاہ کے پسندیدہ باغ میں باندھے ہوئے تھے۔ بادشاہ سے ملاقات کا تقاضا کر رہے تھے۔

چار بجے بادشاہ دیوانِ خاص میں آئے اور سپاہیوں کو شور کم کرنے کو کہا اور کہا کہ وہ اپنے افسروں کو بات کرنے کے لئے آگے کریں۔ کچھ سوار آگے آئے اور بادشاہ کو بتایا کہ وہ اپنے دین کی اور اپنے دھرم کی حفاظت کرنے کے لئے اٹھے ہیں۔ انہیں سور اور گائے کی چربی دی گئی تھی۔ انہوں نے میرٹھ میں یورپیوں کو قتل کر دیا ہے اور اب دہلی میں اپنے بادشاہ کے پاس آئے ہیں”۔

بہادر شاہ ظفر نے جواب دیا، “میں نے کسی کو نہیں بلایا تھا۔ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا”۔

سپاہیوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ بحث چلتی رہی۔ بادشاہ کا کہنا تھا کہ “ہمارا سورج تو ڈھل چکا ہے۔ یہ ہمارے آخری دن ہیں۔ مجھے صرف کچھ سکون کی خواہش ہے”۔

حکیم احسن اللہ خان نے سپاہیوں کو کہا کہ “تم لوگوں کو ماہانہ تنخواہ کی عادت ہے۔ بادشاہ کے پاس خزانہ نہیں۔ تم لوگوں کو کیسے تنخواہ ادا کی جا سکے گی”۔ سپاہی افسر نے کہا” ہم دولت کے لئے نہیں آئے۔ آپ حکم دیں گے تو ہم پوری سلطنت سے آپ کا خزانہ بھر دیں گے۔ بہادر شاہ ظفر کا کہنا تھا کہ “نہ میرے پاس سپاہی ہیں، نہ اسلحہ، نہ خزانہ۔ اور نہ ہی میں اس عمر میں ہوں کہ کسی کا ساتھ دے سکوں یا لڑ سکوں”۔ افسروں کا جواب آیا، “ہمیں صرف آپ کی حمایت درکار ہے۔ باقی ہم سنبھال لیں گے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں پر بہادر شاہ ظفر نے ایک وقفہ لیا۔ اس میں سوچا ہو گا کہ ان کے پاس کیا چوائس ہے۔ بہادر شاہ کی خوبیوں میں بروقت قوتِ فیصلہ نہیں رہی تھی۔ لیکن یہ تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ اس مرتبہ یہاں پر انہوں نے اپنی روایتی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ ان کے درباری ان سپاہیوں کا ساتھ دینے کے حق میں نہیں تھے لیکن شاید اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں انہوں نے آنے والوں کو اپنی حمایت دے دی۔ انقلاب کی سربراہی قبول کر لی۔

ظہیر دہلوی کے مطابق، “بادشاہ تخت پر بیٹھ گئے۔ سپاہی، افسر اور سارے ایک ایک کر کے آگے آتے، سر جھکاتے۔ ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور پیچھے ہٹ جاتے”۔

بہادر شاہ ظفر کے اس فیصلے کے ساتھ یہ اب چند سو باغی سپاہیوں کی بغاوت نہیں رہی تھی۔ اب یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی آخری مزاحمت تھی۔


تحریر: وہارا امباکر


(جاری ہے)



نوٹ : ساتھ لگی پہلی تصویر “جہاں نما” کا سکیچ ہے جو منصور علی خان نے بنایا۔ یہ جمنا کنارے میٹکاف کا گھر تھا۔ بارہ مئی کو اس کو جلا دیا گیا تھا۔ دوسری تصویر اس کے جلائے جانے کے بعد کی۔

پٹواری نظام اور شیر شاہ سوری

 _*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_


_*📜پٹواری نظام شیر شاہ سوری سے کمپیوٹرائزیشن تک👽*_


_*برصغیر میں*_ سرکاری سطح پر زمینوں کے انتظام وانصرام کی تاریخ شیر شاہ سوری سے لے کر اکبراعظم اور برطانوی راج سے لے کر پنجاب میں موجودہ کمپیوٹرائزیشن تک پھیلی ہوئی ہے۔


انگریز نے سنہ 1860 میں اس مںصوبے پر کام شروع کیا اور سنہ 1900 میں پہلا بندوبست اراضی ہوا۔ سنہ 1940 کے بندوبست میں اس نظام کو صحیح معنوں میں جامع اور موثر طریقے سے نافذ کیا گیا۔


آج بھی ہمارے ملک میں بنیادی طورپر اصل ریکارڈ سنہ 1939-40 ہی کا چل رہا ہے۔


پنجاب میں ریوینیو کی موجودہ کمپیوٹرائزیشن پر بات کرنے سے پہلے لینڈ ریکارڈ کے اس نظام کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ نظام دراصل کن بنیادوں پر اور کیوں تیار کیا گیا تھا۔ جب برطانوی حکومت نے محکمہ مال کا آغاز کیا تو 40 کتابیں تیار کی گئیں۔


سب سے پہلے 'شرط واجب العرض' نامی کتاب وجود میں آئی، جو شاید سب سے اہم دستاویز بھی کہلائی جا سکتی ہے۔ اس دستاویز میں ہر گاؤں کو 'ریونیو سٹیٹ' قرار دے کر اس کی مکمل تفصیل درج کی گئی جس میں گاؤں کے نام کی وجہ، اس کے پہلے آباد کرنے والوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل، ان کے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل، رسم و رواج، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے لوگوں کے معاملات طے کرنے جیسے قوانین کا تذکرہ، زمینداروں، زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ دستکاروں، حتیٰ کہ پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض، انھیں فصلوں کی کٹائی کے وقت دی جانے والی شرح اجناس کی ادائیگی (جس کے بدلے میں وہ اپنے اپنے ہنر سے گاؤں بھرکے لیے خدمات بجا لاتے تھے)۔ اس کے علاوہ نمبردار اور چوکیدارکے فرائض اور ذمہ داریاں تک طے ہوئیں۔

گویا ہر گاؤں کے جملہ معاملات کے لیے 'شرط واجب العرض' وجود میں لائی گئی جو آج بھی ریونیو ریکارڈ کا حصہ ہے۔

'روزنامچہ ہدایاتی' میں پٹواری اعلیٰ افسران کی طرف سے دی جانے والی ہدایات درج کرتا ہے۔ 'روزنامچہ واقعاتی' میں پٹواری ہر روز عیسوی، دیسی اور اسلامی تاریخ درج کرتا ہے۔


اس کے نیچے وہ اپنی دن بھر کی کارگزاری لکھتا ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ وہ گرداور اور اعلیٰ افسران کی طرف سے روزنامچہ واقعاتی پر ان کے دستخط کرواتا ہے۔


ایک دستاویز 'روزنامچہ کارگزاری' بھی پٹواری تحریر کرتا ہے۔ وہ سارادن جو کام کرتا ہے اس کی ایک نقل تحصیل آفس میں دفتر قانون گو میں جمع کراتا ہے اور 'روزنامچہ پڑتال' پر اعلیٰ افسران اپنے ریمارکس لکھتے ہیں۔


برطانوی راج کے دوران جب محکمہ مال کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طریقے سے زمین کے چپے چپے کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگاؤں، کرنال سے شروع ہونے والی بغیر مشینری اورجدید آلات کے زمین کی پیمائش ضلع اٹک، دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں آنے والے ندی، نالے، دریا، سڑکیں، راستے، جنگل، پہاڑ، کھائیاں اورآبادیوں وغیرہ کا بھی اندراج ہوا۔


ہر گاؤں، شہر کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے جس بھی شکل میں موجود تھے ان کو نمبرات خسرہ، کیلہ وغیرہ الاٹ کیے گئے۔


ہر نمبر کے گرد چاروں طرف پیمائش'کرم' (ساڑھے پانچ فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لیے ہر گاؤں میں 'فیلڈ بک' تیار کی گئی۔


جب حد موضع (ریونیو سٹیٹ) قائم ہو گئی تو اس میں نمبرات خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر کی چہار اطراف سے جو کرم کے حساب سے زمین برآمد ہوئی، درج کر کے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا کے تحت وضع کر کے اندراج ہوا۔ فیلڈ بک میں ملکیتی نمبرات خسرہ کے علاوہ سڑکوں، عام راستوں، بن، روہڑ، وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر الاٹ کر کے ان کی پیمائش تحریر کی گئی۔


اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام افسران بالا نے کیا۔ اس کا نقشہ آج بھی متعلقہ تحصیل اور ضلع کے محافظ خانوں میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری گاؤں کا نقشہ (لَٹھا) تیار کرتا ہے۔ جب نیا بندوبست ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔

اس پیمائش کے بعد ہر 'ریونیو سٹیٹ' کے مالکان قرار پانے والوں کے نام بقدر حصہ درج کیے گئے۔ ان لوگوں کا شجرہِ نسب تیار کیا گیا اورجس حد تک پشت مالکان کے نام معلوم ہو سکے، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا۔


یہ دستاویز آج بھی اتنی موثر ہے کہ آپ لاکھ اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کریں مگر ایک ذرا تحصیل یا ضلعی محفظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے یہ ریکارڈ آپ کے دادا کے پردادا کی بھی قوم اور کسب نکال کر دکھا دے گا۔


جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے ان کے وارثان کے نام شجرہ کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثت کے مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں۔


پٹواری کی لال کتاب

شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت ایک اہم ترین کتاب میں مرتب کیا جاتا تھا جسے پہلے 'جمع بندی' کہتے ہیں اور اب اس کا نام 'رجسٹرحقداران زمیں' رکھا گیا ہے۔ خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام، نمبر کھیوٹ، کتھونی، خسرہ ، کیلہ، مربع، اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوتا ہے۔


ہر چار سال بعد پٹواری اس دوران منظور ہونے والے انتقالات میعہ، رہن، ہبہ، تبادلہ، وراثت وغیرہ کا عمل اور زمین کی تبدیلی حیثیت کا اندراج، نیز گذشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت و حصہ وغیرہ کا اندراج کر کے نیا رجسٹرحقداران زمین تیار کرتا ہے اور اس کی ایک نقل محافظ خانہ میں جمع کراتا ہے۔ رجسٹر حقداران زمین کی تیاری کا انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ رائج ہے۔


اس کی تیاری میں جہاں پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے، وہاں گرداور اور تحصیلدار سو فیصد جانچ پڑتال کر کے نقائص برآمدہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان افسران کا گاؤں میں جاکر مالکان کی موجودگی میں ان اندراجات کو پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست تیارکرنا ضروری ہے۔


آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ دستاویز اب غلطیوں سے پاک ہے۔

رجسٹرحقداران زمین کے ساتھ 'رجسٹر گردواری' بھی پٹواری تیار کرتا ہے۔


 مارچ میں وہ فصل ربیعہ اور ستمبر میں فصل خریف کے مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ پر جا کر مالکان اور کاشتکاران کی موجودگی میں فصل اور مالک کا نام درج کرتا ہے۔ 


ہر فصل کے اختتام پر پٹواری اس کتاب کے آخر میں درج کرتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے اور کتنی برآمد ہوئی۔


اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی جاتی ہے جس سے صوبے اور ملک کی آئندہ پیداوار کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ یہ محکمہ مال کی ایک اہم دستاویز ہے جس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر جا کر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔


'رجسٹرانتقالات' میں پٹواری جائیداد منتقلہ کا اندراج کرتا ہے اور گرداور تصدیقی نوٹ لکھتا ہے۔

کاغذات مال متذکرہ کی کئی اور کتابیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ریکارڈ آپس میں مطابقت کھاتا ہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ 


پٹواری کے پاس ایک 'لال کتاب ' بھی ہوتی ہے جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتے ہیں، جیسے اس گاؤں یا شہر کا کُل رقبہ، مزروعہ کاشتہ، غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ، مردم شماری کا اندراج، مال شماری، جس میں ہر قسم کے مویشی اور ان کی تعداد، نر، مادہ، مرغیاں، گدھے، گھوڑے، بیل، گائیں، بچھڑے وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے۔


_*اس نظام کو فرسودہ کیوں کہا جاتا ہے؟*_


ماہرین کے مطابق جس طرح یہ محکمہ بنایا گیا تھا اورذمہ داریاں مقرر کی گئیں تھیں اگر ان پر عمل ہوتا رہتا تو زمینوں کے لیے اس سے بہتر نظام کوئی نہیں تھا۔ انگریز دور تک تو یہ نظام ٹھیک چلتا رہا مگر آزادی کے بعد ہم 'آزاد' ہو گئے، ریکارڈ میں جعل سازیاں اور ہیرا پھیریاں فروغ پانے لگیں حتیٰ کہ بدنام زمانہ 'پٹوار کلچر ' وجود میں آیا۔


پٹواری سفارش پر بھرتی ہونے لگے اور افسران اہم پوسٹوں کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اپنانے لگے۔ پٹواریوں، گرداوروں، تحصیلداروں، اسسٹنٹ کمشنروں، اور ڈپٹی کمشنروں کو کام میں دلچسپی اور سمجھ بوجھ نہ رہی۔


اوپر سے حکمران بھی ایسے آتے گئے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی غرض نہ تھی۔ ریونیو عملہ فیلڈ میں جانے کی بجائے دفتر ہی میں بیٹھا رہتا۔


افسران نے پٹواری کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا لیا جو رشوت سے اپنے خرچوں کے علاوہ افسران کے کچن اور اللے تللے چلانے لگے۔ 


سیاستدانوں نے بھی پٹواریوں سے اپنی جلسہ گاہیں بھرنے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح اس نظام سے اعتبار اٹھنے لگ گیا۔


سنہ 2008 میں ورلڈ بنک کے تعاون سے پنجاب میں محکمہ مال کو کمپیٹرائزڈ کرنے کا کام شروع کیا گیا۔


یوں تو ایک لمبا کام تھا لیکن اسے عجلت سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ آزادی کے بعد ریکارڈ میں کافی غلطیاں آچکی تھیں۔ پہلے تو پنجاب حکومت نے طے کیا کہ کمپیوٹرائزیشن سے پہلے ہر تحصیل میں محکمہ کے چار ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں یہ غلطیاں ٹھیک کریں گی مگرریکارڈ کا ستیاناس ہو چکا تھا اور اکثر غلطیوں کی درستی کے لیے سنہ 1940 کے ریکارڈ سے لے کر موجودہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی ضرورت تھی۔


پھر صوبائی حکومت نے عجلت میں حکم دیا کہ جوں کا توں غلط ریکارڈ، لینڈ ریکارڈ میں جمع کرا دیا جائے۔ اب تک پنجاب کے 26000 موضعات کمپیوٹرائزڈ ہو چکے ہیں اور 3000 بقایا ہیں۔ 


ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے قبل ضروری تھا کہ اراضی کا بندوبست کرایا جاتا، جو ہر چالیس برس بعد ہوتا ہے اورآخری بندوبست انگریز حکومت نے سنہ 1940 میں کرایا تھا۔


اگلا بندوبست سنہ 1980 میں ہونا تھا جو ابھی تک نہیں ہوا۔


اکثر انتقالات کا عمل پٹواریوں نے یا لینڈ ریکارڈ سنٹر نے نہیں کیا اور رقبہ بدستور بیچنے والے کے نام پر ہے۔ لینڈ ریکارڈ والے ناخواندہ عوام کو حکم دیتے ہیں کہ پٹواری، تحصیلدار سے بذریعہ فرد بدر ریکارڈ درست کرا کے لائیں، حالانکہ تمام ریکارڈ بمعہ نادرا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے اور وہ با آسانی نام یا رقبہ درست کر سکتے ہیں۔


اب موجودہ حکومت اس تجویز پر غور کررہی ہے کہ ہر تحصیل میں ایک ایک قانون گوئی (چھ سات گاؤں) واپس پٹواریوں اور تحصیلداروں کو دے دیے جائیں اور وہ پرانے نظام کی طرح کام کریں۔


اگر اس طرح لوگوں کی مشکلات حل ہو گئیں تو شاید پرانا نظام واپس آ جائے مگر وہ انگریز والا نہیں 'پٹواری کلچر' والا ہی ہو گا


_


_*═════════════𖣔*_

_*•┈┈•┈┈•⊰✿🌹✿⊱•┈┈•┈┈•*_


_*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_



*═════════════𖣔*