غزل غالب: مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہےurdu pegham
غزل غالب: مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہے
Urdu pegham
مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہے
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پرمیری
ہر بات ہی رد ہے، حد ہے
عشق میری ہی تمنا
تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
زندگی کو ہے
ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے
بے تحاشہ ہیں
ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے
اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے حد ہے
شاعری پر ہے وہ اب تک غالب
نام میں جس کے امیرہے حد ہے
روک سکتے ہو
تو روکو جاذل
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے
No comments:
Post a Comment