Wednesday, September 18, 2019

3 مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے

" 3 مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے"



3 مئی 1995 کا دِن جب امریکی بحریہ اور فضائیہ کے غرور کوپاکستان ائیر فورس کے دو شاہینوں نے خاک میں مِلا دیا۔ پاکستان ائیر فورس کا ایک انوکھا کارنامہ جس نے دُنیا کو حیرت زدہ کردیا۔

1995میں سپائڈرالرٹ کے نام سے پاکستان اور امریکہ کی مُشترقہ جنگی مشقیں شُروع ہوئیں جس میں دونوں ممالک کی بری، بحری اور فضائی افواج نے حصّہ لیا۔

جنگی مشقوں کے آخری مراحل میں فِضا سے سمندر میں حملے کا مقابلے کا انعقاد کیا گیا جِس میں پاکستان ائیرفورس کو ٹارگٹ دیا گیا کہ اُنہیں سمندر میں موجود بحری بیڑے اِبراہم لنکن (CN-72) کےانتہائی قریب جا کر اُس پر حملہ کرکے مصنوعی طور پر کے تباہ کرنا ہے اور دُوسری طرف امریکی بحری بیڑے پر موجود امریکی بحریہ کو یہ ہدف دیا گیا کہ اُنہیں ہوا میں موجود پاکستانی ہوابازوں کا بحری بیڑے کے قریب پہنچنے سے قبل سُراغ لگانا ہے تاکہ بیڑے پر موجود امریکی F-14جنگی تیارے فوری اُڑان بھر کے پاکستانی طیاروں کو ہوا میں ہی دبوچ لیں اور بحری بیڑے کے قریب آنے سے پہلے ہی ہوا میں مصنوعی طور پر گِرا کر یہ مِشن اپنے نام کرلیں۔

اس مشق میں امریکی بحری اور فضائی افسران انتہا کی حد تک مطمئن اور پُر اعتماد تھے۔ اُن کے اعتماد کی وجہ امریکی بحری بیڑے پر موجوددُنیاکاسب سے بہترین ریڈارسسٹم تھا جو میلوں دور سے کسی بھی قسم کی فضائی نقل وحرکت کی بالکل درست نشاندہی کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ امریکیوں کے اعتماد کی دُوسری اور اہم وجہ یہ تھی کہ بحری بیڑے پر موجود امریکی طیارے جدید ترین طیارے تھے جو برق رفتاری میں پاکستانی معراج طیاروں سے کہیں آگے تھے۔
دُوسری طرف پاکستان کے ایک فضائی اڈے کا منظر! جہاں پر پاکستان کے فضائی نگرانوں کو اس مُشکل ترین مشن پر جانے کےلئے پوچھا گیا اور حسبِ معمول تمام پائلٹس ایک عزم اور ولوّلے کے ساتھ اس مشن پر جانے کے لئے اگےآئے لیکن اس مِشن پر صرف دو پائلٹ مُنتخب ہونے تھے جنہوں نے اپنے معراج طیاروں کے ساتھ اس مُشکل ترین مشن پر جانا تھا۔
سینئر کمانڈ کے فیصلے کے مطابق اس مشن کےلئے وِنگ کمانڈر عاصم سلمان اور فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کا انتخاب کیا گیا۔ وِنگ کمانڈر عاصم سلمان اُن دِنوں پاکستان فضائیہ میں سکوارڈن نمبر آٹھ کے بطورکمانڈرفرائض سرانجام دے رہے تھے۔
دِن تین بجے کے وقت دونوں پاکستانی شاہین مشن پر روانہ ہونے سے قبل اپنے طیاروں کی جانچ پڑتال میں مشغول تھے جب وِنگ کمانڈر عاصم سلمان نے فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اپنے پاس بُلایا اور کہا۔ احمد میں اُمید کرتا ہوں آپ اس مشن کےلئے مُکمل طورپر تیارہو۔ لیفٹیننٹ احمد حسن کےچہرےپر ایک پُراعتماد اور جوش سے بھرپور مُسکراہٹ آئی اور وہ انتہائی ادب لیکن اعتماد سے بولے "سرآج تین مئی 1995کادِن امریکی ہمیشہ یاد رکھیں گے"

وِنگ کمانڈر کو اپنےنوجوان شاہین کی بات پر مُکمل اعتماد تھا کیونکہ آج اُنہوں نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی انوکھا فیصلہ کیا جو آج تک کی فضائی تاریخ میں نہیں ہوا تھا لیکن ونگ کمانڈر عاصم سلمان نے اپنے اس فیصلے سے احمد حسن کو آگاہ نہیں کیا اور فیصلہ کیا کہ ہدایات مشن پر روانہ ہونے کے بعدطیارے کے وائرلیس سےدیں گے۔ 

چند لمحوں بعد دونوں شاہین اپنے اپنے معراج طیاروں کے کاک پٹ میں موجود تھے۔ پھر اُن کے طیاروں نے نعرہ تکبیر کی صداؤں کی گونج میں ہوا میں اُڑان بھری اور ایک مُشکل ترین فضائی مشن پر روانہ ہوگئے۔

اِس مشن میں ونگ کمانڈر عاصم سلمان لیڈر جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ احمدحسن ونگ مین کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
امریکی بحری بیڑے پر موجود تمام بحری اور فضائی افسران انتہائی اطیمنان سے پاکستانی طیاروں کی ریڈار پر نشاندہی کا انتظار کررہے تھے کہ جیسے ہی پاکستانی طیاروں کی نشاندہی ہو اُن کے جدید ترین ایف چودہ طیارے فوری اُڑان بھر کے پاکستانی معراج طیاروں کو بحری بیڑے سے میلوں دُور دبوچ لیں اور امریکی اپنی فتح کا جشن منائیں۔

تمام امریکی افسران ریڈرا روم میں موجود تھے اور امریکی پائلٹ اپنے طیاروں میں موجود اگلے حُکم کے مُنتظر تھے۔
دونوں پاکستانی شاہین اپنے اپنے طیاروں کو ہدف کی طرف لے جا رہے تھے جب اچانک فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو طیارے کے وائرلیس پر اپنے لیڈر کا ایک انوکھا اور پُر خطر حُکم سُنائی دیا اور پھربیک وقت دونوں طیارے بجلی کی رفتار سےنیچے کی طرف جانا شُروع ہوگئے۔

امریکی بحری بیڑے پر اُس وقت سناٹا چھا گیا جب پاکستان کے دونوں شاہینوں نےامریکیوں کو حرکت کا موقع دئیے بغیرامریکی بحری بیڑے کی بالائی سطح کے بھی نیچےسے سمندر سے محض چند فُٹ اوپر سے اپنے معراج طیارے برق رفتاری سے فضاء میں بُلند کئے اور امریکی بحری بیڑے کو کامیابی سے مصنوعی طور ہراپنے ہدف کا نشانہ بناکر پاکستان کی امریکیوں پر فتح کا پیغام کنٹرول روم کو دیا۔ 

پاکستانی ہوائی اڈہ ایک بار پھر نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اُٹھا جبکہ دُوسری جانب امریکی بحری بیڑے پر ایک سناٹا چھا چُکا تھا اور امریکی ایک صدمے کی کیفیت میں ایک دوسرے کا مُنہ دیکھ رہے تھے۔ امریکی سوچ رہے تھے کہ آخر ایسا کیسے ممکن ہوا کہ پاکستانی معراج طیارے جدید ترین ریڈار پر نظرآئے بغیر کامیابی سے بحری بیڑے کے اُوپر سے گُزر گئے اور اُنہیں سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دِیا۔ 

ونگ کمانڈر عاصم سلمان نے ہوائی اڈے سے اُڑان بھرنے سےقبل ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ امریکی ریڈار سے بچنےکےلئے اُنہیں دونوں طیاروں کو انتہائی نِچلی اور خطرناک سطح پر تیزرفتاری سے پرواز کرنا پڑے گی چُنانچہ اُنہوں نے اُڑان بھرنے کے چند لمحوں بعد ہی فلائٹ لیفٹیننٹ احمد حسن کو اچانک یہ حُکم دیا۔ قارئینِ کرام اتنی نچلی سطح پر یہ پرواز معراج طیاروں کے ساتھ نامُمکن تھی اوردُنیا میں آج تک کسی پائلٹ نے جدیدترین طیارےپربھی ایسی خطرناک پرواز نہیں کی تھی۔ سطح سمندر پر یہ پرواز اور بھی مُشکل تھی کیونکہ زمین اور پانی پر ہوا کا دباؤ مُختلف ہوتا ہے لیکن آفرین کہ پاکستان کے بہادر اور نڈرسپوتوں نے ایسے نامُمکن کو ایک جذبے سے مُمکن کر دِکھایا اور امریکیوں کے غرور کوخاک میں مِلا کر فضائی معرکوں میں ایک تاریخ رقم کر دی اور اپنےسبزہِلالی پرچم کی لاج رکھ کر اقبال (رح)  کے اس قول کی کو سچ کر دِکھایا "مومن ہو تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سِپاہی"
ہمارا سلام ہو وطن کے تمام بہادر سپوتوں پر۔
*افواجِ پاکستان زندہ باد*
*پاکستان پائندہ باد*

No comments:

Post a Comment