ساس سسر کی خدمت، شریعت کے آئینے میں ۔۔۔!!
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی بتارہی تھیں کہ ان کے رشتہ
داروں میں ایک خاتون اپنے بیٹے کے لیے رشتہ دیکھ رہی تھی۔ تو انہوں نے
بتایا کہ جی میری نظر میں ایک بہت اچھی لڑکی ہے، آپ کہیں تو دکھا دیتی ہوں؟
وہ خاتون لڑکی دیکھنے گئیں تو انہیں پسند آگئی ۔ بات آگے بڑھی
اور چار ماہ بعد ہی شادی قرار پا گئی ۔ اب شادی تو ہوگئی لیکن کچھ دنوں بعد جب بہو
کو بھی گھر کے کاموں میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا تو محترمہ نے صاف منع کر دیا کہ
مجھ پر گھر کے کام کاج کرنا واجب نہیں، میرا جی چاہے گا تو کروں گی ورنہ کوئی مجھے
مجبور نہیں کر سکتا ۔ عجیب سی صورت حال تھی ۔ گھر کے سب افراد الجھن کا شکار تھے ۔
شوہر کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا تھا کہ نئی نویلی دلہن کو کیا کہیں ۔ خیر جناب
سوچا کہ تھوڑا وقت دیتے ہیں دلہن خود ہی روزمرہ کے کاموں میں دلچسپی لینے لگیں گی۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دلہن کا رویہ بھی عجیب ہوتا گیا ۔ دل چاہتا تو کوئی
کام کر لیتی ورنہ اپنے کمرے میں ہی زیادہ وقت گزارتیں...... اب ان لوگوں نے تو اس
مسئلے کو جیسے تیسے ہینڈل کیا سو کیا مگر میں نے سوچا اس موضوع پر ضرور کچھ لکھنا
چاہیے ۔
پہلے تو ایک بات کی وضاحت کردوں کہ میرے لکھنے کا مقصد ان لوگوں
کی حوصلہ افزائی ہرگز نہیں ہے جو گھر کی بہو کو حقیقتاً گھر کی نوکرانی سمجھ لیتے
ہیں اور پورے گھر کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیتے ہیں. یہ سراسر ظلم اور
ناانصافی ہے جس کا وبال دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا اور آخرت میں بھی جواب دینا
ہوگا۔ بلکہ یہاں لکھنے کا مقصد اعتدال کو فروغ دینا ہے اور ان خواتین کی ذہن سازی
کرنا ہے جو اس طرح کے ابہام کا شکار ہیں ۔
اگرچہ ساس سسر کی خدمت اور گھر کے کام عورت پر واجب نہیں
ہیں مگر ان باتوں کا تعلق قانون سے نہیں بلکہ اخلاقیات سے ہے۔ میاں بیوی کی زندگی
اصول و ضوابط کی نہیں بلکہ اخلاق و مروت اور پیار محبت کی زندگی ہے ۔ اس کی
کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ بیوی شوہر کی اطاعت گزاری کرے، اس کی منشاء و مراد
کو سمجھے، اس کے والدین کی خدمت بھی کرے اور اپنے والدین کی طرح ان کے ساتھ عزت و
احترام سے پیش آئے اور انھیں راحت پہنچانے کی کوشش کرے ۔ اور اسے اپنی سعادت سمجھے
۔
Note**:
To Support
ویب
سائٹ وزٹ کا شکریہ!
ساتھ ہی اس ویب سائیٹ کی دائیں طرف
سے
کےبٹن
دبا دیں۔ اور اپنی ای میل بھی درج کر دیں۔
شکریہ!
دعا
گو۔ایڈمن
Note**:
To Support
Click LIKE and FOLLOW this
website post.
And Subscribe
By Eentering your email if this post is helpful. Thanks!
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف ۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ساس سسر
کی خدمت واجب نہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ نکاح کے ایگریمنٹ میں یہ
شامل نہیں ہے کہ بیوی ساس سسر کی خدمت بھی کرے گی بلکہ نکاح کا بنیادی ایگریمنٹ
ایک دوسرے سے اپنی حلال خواہش کی تسکین ، اولاد کا حصول اور مل جل کر اس کی تربیت
کرنا ہے یعنی نکاح کا بنیادی مقصد ایک خاندان آباد کرنا ہے۔
ساس سسر کی خدمت کا اگرچہ ایگریمنٹ کوئی نہیں مگر یہ آپ کی اخلاقی
ذمہ داری ہے ۔ ساس سسر کے بھی کئی حقوق ہیں ۔ ایک تو وہ بزرگ ہیں اور بزرگوں کی
خدمت کرنا شریعت کی تعلیم ہے اور پھر یہ عام بزرگوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ یہ شوہر
جیسی محترم شخصیت کے والدین ہیں ۔ اب ذرا غور کریں کہ آپ کے لیے جو شوہر قابلِ
احترام ہے اس کے لیے سب سے زیادہ قابلِ احترام اس کے والدین ہیں. شریعت نے بہت حد
تک انھیں آپ کے والدین بنادیا ہے کہ انھیں ہمیشہ کے لیے آپ کا محرم بنا دیا۔ سسر،
بہو کے لیے بالکل باپ کی طرح ہے کہ اللہ نے قیامت تک کے لیے اس سے نکاح حرام کر
دیا ۔ اسی طرح ساس اپنے داماد کے لیے بالکل ماں کی طرح ہے کہ ساس اور داماد کا بھی
کبھی آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا ۔
اور ان رشتوں کا بیان اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا:
"وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا
فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا ۔"
سورہ الفرقان 54.
"وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسے نسب والا اور
سسرالی رشتوں والا کر دیا ۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار ہر (چیز پر) قادر ہے -"
یہ دیکھیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ہدایت میں ان رشتوں کا
ذکر کیا ہے. اگر یہ سسرالی رشتہ دار کوئی ایسی ہی غیر اہم چیز ہوتے تو اللہ تعالیٰ
یہاں کیوں ان کا ذکر کرتے...؟
اب بات صرف ہمارے سمجھنے کی ہے کہ ہم نے ہی اس نکتے کو غلط
سمجھا ورنہ ساس سسر کی خدمت واجب نہ ہونے کا یہ مطلب کہاں سے آ گیا کہ بیوی شوہر
کے والدین کو اجنبی سمجھ کر ان کی خدمت سے پہلو تہی کرے، ان کے ساتھ حسن سلوک نہ
کرے اور گھر میں بیٹھ کر یہ فتوے جاری کرے کہ مجھ پر تو یہ واجب ہی نہیں۔
ایسی سوچ رکھنے والی تمام بہنوں سے ایک سوال ہے کہ کیا دین میں
فرائض و واجبات کے علاوہ اور کچھ نہیں؟
اور میاں بیوی صرف ایک دوسرے کے فرائض و واجبات پورے کرنے
کی حد تک ہیں؟
اگر صرف اسی پر آجائیں تو پھر آپ کے بھی بہت سارے حقوق تلف
ہوجائیں گے جو خواہ مخواہ شوہر نے اپنے ذمے لے رکھے ہیں ۔
آپ کے لیے اچھے سے اچھا کھانے پینے کا بندوبست کرنا، ہر موسم کے
پھل، آئسکریم اور پیزا ، رول، برگر کھلانا، گھر میں ہر سہولت مہیا کرنا، مہنگے
مہنگے موبائل خرید کر دینا، ایزی لوڈ کا خرچ بھی برداشت کرنا، گرمی سردی اور ہر
تقریب کے لیے نئے نئے جوڑے بنا کر دینا، سیرو تفریح کرانا، کبھی میکے لے کر جانا،
کبھی بہن بھائیوں کے گھر لے کر جانا، کبھی خود ان کی دعوتیں کرنا، ان کی تقریبات
میں شریک ہونا، آپ کی پسند کے مطابق تحفے تحائف دینا.. اور نہ جانے کیا کچھ شوہر
بیوی کے لیے کرتا ہے تو کیا یہ سب شوہر کے فرائض و واجبات میں شامل ہے؟؟؟
یاد رکھیے یہ سب کچھ شوہر احسان کرتا ہے اپنی بیوی پر۔ شرعاً یہ
سب کچھ کرنا شوہر پہ واجب نہیں ہے۔ میاں بیوی کا تعلق آپس میں صرف فرائض و واجبات
پورے کرنے سے ٹھیک نہیں چلتا بلکہ اس رشتے کا تعلق اخلاقیات سے ہے، پیار محبت اور
مروت سے ہے، صلہ رحمی سے ہے۔
کیا قرآن میں رشتوں کو جوڑنے کا حکم نہیں آیا؟ کیا حدیث
میں صلہ رحمی کی تاکید نہیں کی گئی؟ وہی دین جس میں پڑوسی تک کے اتنے حقوق بیان
کیے گئے کہ نبی علیہ السلام کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وراثت میں بھی حصہ
دار نہ بنادیا جائے، اسی دین میں ایک ہی گھر میں رہنے والے شوہر کے ماں باپ کا کچھ
حق نہیں...؟؟؟ شوہر کے بہن بھائی کسی حسن سلوک کے مستحق نہیں؟
سوچنے کا مقام ہے کہ اس طرح کہنے سے رشتے ٹوٹیں گے یا جڑیں گے؟
اور کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس بات کو سن کر خوش ہوگا یا ناراض ہوگا؟ اس کے دل
پر کیا گزرے گی؟
Note**:
To Support
ویب
سائٹ وزٹ کا شکریہ!
ساتھ ہی اس ویب سائیٹ کی دائیں طرف
سے
کےبٹن
دبا دیں۔ اور اپنی ای میل بھی درج کر دیں۔
شکریہ!
دعا
گو۔ایڈمن
Note**:
To Support
Click LIKE and FOLLOW this
website post.
And Subscribe
By Eentering your email if this post is helpful. Thanks!
No comments:
Post a Comment