Thursday, August 3, 2023

مغلیہ زوال قسط نمبر 18: خون کا بدلہ

 _*مغلیہ زوال 18*_


_*خون کا بدلہ*_


اگست کے آغاز تک ملٹری توازن واپس برٹش کے پاس جا چکا تھا۔ اگرچہ ان کی تعداد شہر کی فوج سے بہت کم تھی لیکن شہر سے آنے والے حملوں کی تعداد اور شدت میں کمی آ گئی تھی۔ انقلابی سپاہی اور لیڈرشپ میں سے کئی دہلی چھوڑ رہے تھے۔ اس بار گریٹ ہیڈ نے اپنی بیوی کو خط میں لکھا، “ہمارے دفاع کی چٹان سے ٹکرانے والی لہروں میں ویسی قوت نہیں رہی”۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 18


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانوی کیمپ کا موڈ بدل گیا تھا۔ اب انتقام کی بات ہو رہی تھی۔ دہلی والوں کا قتلِ عام کھلم کھلا اور پرجوش طریقے سے ڈسکس کیا جاتا تھا اور یہ بھی کہ شہر کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ برٹش پریس میں  کانپور میں بی بی گڑھ میں 73 خواتین اور 124 بچوں کے برٹش ہونے کے جرم میں کئے گئے قتل کو نمایاں جگہ ملی تھی۔ برٹش طیش میں تھے۔ دہلی سے جان بچاکر فرار ہو جانے والے جارج ویگنٹریبر نے لکھا۔ “دلی کی آلودہ دیواروں کو مسمار کئے جانا ضروری ہے تاکہ ان کے آسیب کو ختم کیا جا سکے اور ان کے کالے کرتوتوں کی سیاہی ختم کی جا سکے۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ انصاف ہو گا۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ دہلی کے بادشاہ کے تخت پر برٹش افسر بیٹھے گا۔ بادشاہ کے گلے میں رسی ہو گی اور اسے انصاف کی خاطر قربان کر دیا جائے گا۔ اور اس کے بعد ۔۔ دہلی میں خاموشی کا راج ہو گا۔ موت کی خاموشی۔ برٹش انصاف کے تباہ کن طوفان میں ہر ہندوستانی بہہ جائے گا”۔


پانچ اگست کو یہ انتقام ایک قدم قریب آ گیا۔ برٹش دہلی فیلڈ فورس تک خبر پہنچی کہ کمک کے لئے بڑی فوج کا پہلا دستہ پنجاب سے روانہ ہو گیا ہے۔ اس کے لئے لارنس نے ایک بڑا جوا کھیلا تھا۔ پنجاب میں موجود تقریباً تمام یورپی فوجی اس پہلے قافلے کا حصہ تھے۔ مقامی رضاکاروں کی بھی تعداد تھی۔ یہ ایک میل لمبا قافلہ تھا جس میں بھاری توپخانہ بھی شامل تھا۔ یہ فیروزپور سے نکل کر انبالہ تک پہنچ چکا تھا۔ جی ٹی روڈ سے چند روز کی مسافت پر تھا۔ لارنس نے یہ جوا اس امید پر کھیلا تھا کہ وسطی ہندوستان میں لڑائی کے دوران مغربی ہندوستان میں لاہور سے پشاور تک کا علاقہ پرسکون رہے گا۔ 


اور انتقام پسند برٹش کے لئے ایک اور بہترین خبر تھی۔ ایک ہزار برطانوی، 600 پنجابی مسلمان سواروں (جن میں اکثریت ملتان سے تھی)، 1600 سکھوں اور توپخانے کی قیادت پشاور سے آنے والے برٹش فورس کے سفاک ترین افسر جان نکلسن کر رہے تھے۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تریموں گھاٹ پر بغاوت کرنے والوں کے پورے دستے کا صفایا جس طریقے سے نکلسن نے کیا تھا، اس کا چرچا دور تک گیا تھا۔ یہ پورا دستہ سیالکوٹ سے دہلی کی طرف جا رہا تھا کہ نکلسن نے دریائے راوی کے کنارے گھات لگائی تھی۔ باغی سپاہیوں کے پیچھے دریا تھا اور آگے نکلسن کا دستہ۔ انہوں نے ایک بھی سپاہی کو جیتا نہیں چھوڑا تھا۔ مون سون میں بپھرے راوی میں چھلانگ لگانے کا مطلب موت تھا۔ کچھ کے لئے یہی واحد طریقہ بچا تھا۔ نکلسن قیدی بنانے کے قائل نہ تھے۔ اس روز بھی بہت کم قیدی بنائے تھے۔ اور یہ قیدی پکڑے جانے کے ساتھ ہی گولی کا نشانہ بن گئے تھے۔ نکلسن اب دہلی کی طرف آنے والے پہلے بڑے دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ 


نکلسن ایک سائیکوپاتھ تھے، اذیت پسند اور ہندوستانیوں سے نفرت رکھنے والے۔ گورنر جنرل کیننگ کے مطابق “نکلسن انتقام کا دیوتا ہے، وہ دشمن کے دل میں دہشت ہے”۔ لیفٹینیٹ اومانی نے ان کی اذیت پسندی کو دیکھا تھا اور شاک میں رہ گئے تھے۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھا کہ ایک باورچی لڑکے کو انہوں نے اس لئے مارا تھا کہ وہ مارچ کرنے والوں کی لائن کے آگے آ گیا تھا۔ جب اس لڑکے نے مار پڑنے پر شکوہ کیا تو دوسری بار پڑنے والی مار کے بعد جانبر نہ ہو سکا۔ اپنی فوج کو بھی قیدیوں کو تشدد کے بارے میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ اومانی کی ڈائری میں اس کے کئی ہولناک واقعات درج ہیں۔


چودہ اگست 1857 کو ولسن دہلی کے باہر پہنچ گئے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکلسن کی دوسری خاصیتوں میں انتھک محنت اور تفصیل میں جا کر ہر چیز کو دیکھنا تھا۔ برٹش جنرل ولسن کو نکلسن اور نکلسن کو جنرل ولسن بالکل پسند نہیں آئے۔


دہلی سے برٹش فورس پر حملے کم ہو چکے تھے۔ برٹش کو پسند کرنے والے پنجاب کے راجاوٗں کی طرف سے برٹش فوج کو تحائف اور کھانے پینے کا سامان ملنا شروع ہو گیا تھا۔ جھینڈ کے راجہ نے انگریزوں کے لئے خوراک اور روزمرہ کی اشیاء کی سپلائی بیس بنا دی تھی۔ انبالہ سے چاکلیٹ، ٹوتھ پاوڈر اور دوسرا سامان۔ جہانگیر اور کاوس جی سستی بئیر پہنچانے لگے تھے۔ 


ہیضہ ابھی بھی روز کی جانیں لے رہا تھا۔ مردہ جانوروں اور انسانوں کی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن برٹش خندقوں میں حوصلے اب بلند تھے۔ دہلی کی طرف سے ان کے لئے اچھی خبریں آ رہی تھیں۔ کئی کی نگاہیں اب دہلی کے مالِ غنیمت پر لگی تھیں۔ کہیں سے ایک دو ہیرے اچک لیں گے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ دہلی ہندستان کا خوشحال ترین شہر تھا۔ فوجی اس کی دولت سے فیض یاب ہونے کے خواہشمند تھے۔ جب کہ کئی برٹش، جن کے خاندان کے افراد قتلِ عام میں مارے گئے تھے، انتقام کی آگ بجھانا چاہتے تھے۔


مئی سے جاری اس جنگ کے فیصلہ کن مراحل قریب آ رہے تھے۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ساتھ لگی تصویر میں نکلسن کا مجسمہ ہے جو دہلی میں نصب رہا۔ انڈیا کی آزادی کے بعد اس کو اتار کر برطانیہ بھجوا دیا گیا۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 16: جنگ کا توازن

 _*مغلیہ زوال 16*_


_*جنگ کا توازن*_


دلی کا محاصرہ کرنے والے برٹش فوجی اچھے حال میں نہیں تھے۔ اگرچہ ان کی خوراک کی سپلائی متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے علاوہ ان کے لئے صورتحال مخدوش تھی۔ روز کے حملوں اور توپ کے گولوں کے علاوہ ان کا ایک دشمن سورج تھا۔ دہلی کی گرمی میں سورج سے بچنے کے لئے خیموں کے سوا کوئی پناہ نہیں تھی۔ کئی لوگ سن سٹروک سے مارے گئے۔ پانی صرف جمنا نہر سے ملتا تھا اور یہ پانی ہے یا مٹر کی یخنی؟ اس میں فرق معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ سیوریج کا کوئی انتظام نہیں تھا۔


مغلیہ زوال


مرنے والوں کے سیاہ ہوتے اور بدبو دیتے جسم بڑھ رہے تھے۔ علی پور سے کیمپ تک موت ہر صورت میں موجود تھی۔

ایک اور مسئلہ مکھیوں کا تھا۔ خیموں میں، کھانے میں۔ روٹن لکھتے ہیں،

“کھانے کے اوپر مکھیوں کی تہہ ہوتی تھی۔ چائے کے کپ پر بھی مکھیاں بھنبھناتی رہیتیں۔ اگر احتیاط نہ کریں تو یہ اوپر سے مکھیوں بھر جاتا تھا جو اس کے اوپر تیر رہی ہوتی تھیں۔کچھ مردہ اور کچھ قریب المرگ”۔

چارلس گرفتھ ایک نوجوان لیفٹیننٹ تھے، لکھتے ہیں۔

“آپ کی آنکھ گولے یا بِگل کی آواز سے نہیں، مکھیوں کے منہ پر بیٹھنے سے کھلتی تھی۔ مرے ہوئے لوگوں کی لاشیں انہیں مرغوب تھیں۔ ہوا بدبودار تھی، گرمی شدید تھی۔ اور ہمارے کیمپ میں اس وجہ سے روز لوگ مر رہے تھے”۔

یہ مزید خراب اس وقت ہو گیا جب 27 جون کو مون سون کی تیز بارش نے آن لیا۔ برٹش آرمی کیمپ کیچڑ اور بدبودار دلدل بن گیا۔ بچھو اور سانپ بلوں سے نکل آئے۔ رات کی نیند بھی مشکل ہو گئی۔ اور پھر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ میڈیکل کی سہولیات مفقود تھیں۔ زخمی ہو جانے والے زندہ نہیں بچتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جولائی آیا اور برٹش اپنے کیمپ کو بہتر بناتے گئے۔ ہیضے سے مرنے والوں کی تعداد انقلابیوں کے ہاتھوں مرنے والوں سے زیادہ تھی۔ 5 جولائی کو برٹش آرمی کے کمانڈر انچیف جرنل برنارڈ کا انتقال بھی ہیضے کے ہاتھوں ہوا۔ اس سے پہلے جنرل اینسن مئی میں بھی ہیضے سے فوت ہوئے تھے۔ نئے سربراہ جنرل تھامس ریڈ تھے جو دو ہفتوں میں ہی بیمار ہو کر میدان چھوڑ گئے اور قیادت 17 جولائی کو جنرل ولسن کے پاس آ گئی۔

اگلے روز ولسن نے لاہور میں جان لارنس کو خط لکھ کر معاملات کی سنجیدگی کا بتایا اور یہ کہ کسی بھی قیمت پر فوج دہلی بھیجی جائے اور جلد ایسا نہ کیا دہلی میں شکست ہوتی نظر آ رہی ہے۔ امداد بہت سی چاہیے، جلد چاہیے اور پنجاب سے کمک بھجوائی جائے۔ کم از کم ایک یورپی رجمنٹ، ایک سکھ رجمنٹ اور ایک پنجابی رجمنٹ۔ ورنہ انہیں جلد پسپا ہو کر کرنال کا رخ کرنا پڑے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو گا۔ ( یہ کانفیڈنشل خط ریکارڈ میں محفوظ ہے)۔

ولسن کی مایوسی کی وجہ یکم جولائی کو دہلی میں بریلی بریگیڈ کی آمد تھی۔ اس میں چھ سو آرٹلری، سات سو سوار اور 2300 سپاہی تھے۔ چودہ ہاتھی، تین سو گھوڑے، ایک ہزار بیل گاڑیاں، ٹینٹ، اسلحہ اور سپلائی، خزانہ اور ان کے پیچھے تین سے چار ہزار غازی۔

دو جولائی کو یہ دہلی میں کلکتہ گیٹ سے داخل ہوئے تھے۔ ان کا شاندار استقبال ہوا تھا۔ ملکہ زینت محل کے والد نواب قلی خان نے مٹھائی اور پھل تقسیم کئے تھے۔ انہوں نے ڈیرہ دہلی دروازے کے باہر جمایا کیونکہ شہر میں ان کے رہنے کی جگہ نہیں تھی۔

بریلی بریگیڈ میں ایک اور بہت اہم چیز لیڈرشپ تھی۔ بڑی بڑی مونچھوں اور لمبی قلموں والے آرٹلری کے صوبیدار بخت خان جنہوں نے انگریزوں کی طرف سے افغانوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں اور ان جنگوں کے ہیرو تھے۔ وہ موثر ملٹری قائد کی شہرت رکھتے تھے۔ بخت خان محاصرہ کرنے والی فوج کے کئی افسران کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ کرنل جارج بورشے نے ان سے فارسی پڑھی تھی۔ دوسرے لیڈر مولوی سرفراز علی تھے۔ انہیں امامِ مجاہدین کہا جاتا تھا۔ دہلی شہر اور دربار کو اچھی طرح جانتے تھے۔ دہلی میں دارالبقا میں جیومیٹری اور الجبرا پڑھاتے رہے تھے۔ بریلی بریگیڈ کے مجاہدین کے سربراہ تھے۔ یہ دو لوگ جہادیوں اور دہلی کی اشرافیہ کو اکٹھا کر سکتے تھے۔

آمد سے اگلے روز بخت خان اور مولوی سرفراز کو محل میں ریاستی پروٹوکول کے ساتھ بلایا گیا۔ یہاں پر انہیں فرزند اور صاحبِ عالم کے خطابات ملے اور مرزا مغل کو ہٹا کر بخت خان کو کمانڈر نچیف بنا دیا گیا۔ مرزا مغل کو انتظامی امور دیکھنے کا کام سونپا گیا۔

اگلے دن فوجی اصلاحات کے تھے۔ تنخواہوں کا بندوبست، لوٹ مار کرنے والوں سے بازپرس اور سزائیں، اسلحے کا سٹور سسٹم۔ تین انگریز جاسوس پکڑے گئے اور ان کو سزائے موت دی گئی۔ فوج کے تمام امور شہزادوں سے لے لئے گئے۔ فوجی پریڈ جو دہلی گیٹ سے اجمیری گیٹ تک ہوا کرتی تھی، شروع کی گئی۔

نئی ملٹری سٹریٹیجی آئی۔ فلینک سے حملے کرنے میں تین جولائی کو جزوی ناکامی ہوئی لیکن یہ نیا طریقہ تھا۔ روٹا سسٹم شروع ہوا تا کہ مختلف سپاہی مختلف وقتوں میں کام کریں اور برٹش کو سکون کا سانس نہ لینے دیا جائے۔ فوج کے تین حصے کئے گئے تا کہ باری باری انگریزوں کو الجھایا جائے۔ کوئی دن خالی نہ جائے۔

چند روز میں پانسہ بدل رہا تھا۔ برٹش آرمی تھک چکی تھی، امداد کا انتظار کر رہی تھی، جس کے بغیر مقابلے کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر بخت خان کے مجسمے کی، جو دہلی کے لال قلعہ میوزیم میں کھینچی گئی۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 14: نازک صورتحال

 _*مغلیہ زوال 14*_


_*نازک صورتحال*_



شہر کے کوتوال معین الدین نے 52 انگریز شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لئے حراست میں لیا تھا اور انہیں شاہی محل میں رکھا تھا۔ یہ ان کی جان بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ سپاہیوں کو جب بھنک پڑی تو انہوں نے حکیم اور خواجہ سرا پر الزام لگایا کہ یہ انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان کی جان بچانا چاہ رہے ہیں۔ قیدیوں کو شاہی قید خانے سے نکال کر لاہور دروازے کے پاس لے جا کر نوبت خانے کے میدان میں پیپل کے درختوں سے باندھ دیا گیا اور ان پر آوازے کسے جانے لگے۔ انہیں ذبح کرنے کی تیاری ہونے لگی۔

بادشاہ اور درباری ششدر کھڑے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا، “مسلمان الگ ہو جائیں اور ہندو الگ۔ اور جا کر اپنے اپنے مذہبی راہنماوں سے جا کر پوچھیں کہ کیا بےبس مردوں، خواتین اور بچوں کو ذبح کر دینے کا  انہیں کوئی اختیار ہے؟ اس طریقے سے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی”۔ سعید مبارک شاہ لکھتے ہیں کہ “بحث بڑھتی گئی۔ پھر بادشاہ رو پڑے اور کہا کہ اگر یہ ظلم کیا گیا تو خدا کا قہر ہم پر نازل ہو گا۔ کوئی بے قصوروں کو بھی اس طرح مارتا ہے؟ لیکن انقلابیوں نے ایک نہ سنی اور کہا کہ ہم انہیں قتل کریں گے اور آپ کے محل میں ہی کریں گے خواہ کچھ بھی ہو اور پھر ہم اور آپ انگریز کی نظر میں اس میں برابر کے قصوروار ہوں گے”۔

بات اتنی بڑھ گئی کہ حکیم احسن اللہ نے کہا کہ “اگر یہ ہونے دیا گیا تو انگریز دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے لیکن ان جذباتی لوگوں کے آگے عقل استعمال کی گئی تو وہ نہ انہیں زندہ چھوڑیں گے، نہ ہمیں اور نہ بادشاہ کو”۔

قیدیوں کو بٹھا کر گولیوں اور تلواروں سے مار دیا گیا اور لاشوں کو بیل گاڑیوں میں بھر کر دریا میں بہا دیا گیا۔ یہ واقعہ دہلی والوں کے لئے شدید بے چینی کا باعث بنا۔ دہلی اخبار نے تجزیہ دیا، “ان پوربیوں کے بھیانک ظلم کی وجہ سے ہم انگریز سے جیت نہیں پائیں گے”۔

ظفر کے لئے یہ قتلِ عام ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ سپاہیوں نے درست اندازہ لگایا تھا کہ برٹش اس کا انتقام لینے آئیں گے اور شاہی محل میں ہونے والے اس قتلِ عام کا ذمہ دار شاہی خاندان ٹھہرایا جائے گا۔ اس کو روکنے میں ناکامی نے بہادر شاہ ظفر کے لئے واپسی کا راستہ بند کر دیا تھا اور ان کے خاندان کو ختم کرنے کی مہر لگا دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپاہیوں کے آپس کے جھگڑے بھی معمول تھے۔ میرٹھ کے سپاہی اور دہلی کے سپاہیوں میں جھڑپیں ہو جاتی تھیں۔ اخبار کا تراشہ، “ہر کوئی بے بس ہے۔ کئی لوگ فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔ شہر کے کوتوال کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن ان تلنگوں کو قابو کون کرے۔ دو کام بہت اہم ہیں۔ تنخواہوں کی ادائیگی اور تلنگوں کو لگام دینا”۔

انیس مئی کو ایک نئی نقسیم ابھر آئی۔ قدامت پرست مولوی محمد سید نے جامعہ مسجد میں خطبہ دیا اور کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا جہاد ہے اور اس کا پوسٹر لگوا دیا۔ ظفر نے اس کو اتروا دیا کہ یہ ہندووٗں کو غصہ دلائے گا۔ اگلے روز مولوی محمد سید اپنے گروپ کے ساتھ شاہی محل میں آ گئے کہ ہندو انگریزوں کے حمایتی ہیں اور ان کے خلاف بھی جہاد فرض ہے۔ محل میں ہندو اور مسلمانوں کی گرما گرم شروع ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر نے خاموش کروا کر کہا کہ ان کی نظر میں ہندو اور مسلمان برابر ہیں اور یہ خیال صرف حماقت ہے۔ پوربی سپاہیوں کی اکثریت ہندو ہے اور دہلی میں خانہ جنگی شروع نہیں کی جا سکتی۔ جہاد انگریز کے خلاف ہے۔ ہندو کے خلاف نہیں۔

اس موقع پر تو ظفر جہادیوں کو خاموش کروا کر واپس بھیجنے میں کامیاب رہے لیکن آٹھ ہفتے بعد جب شمالی ہندوستان سے آنے والے مجاہدین کے بڑی تعداد شہر میں اکٹھی ہو چکی تھی، ان کے لئے یہ روکنا بہت مشکل ہو جانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برٹش آرمی کے لئے دہلی پر پیشقدمی آسان نہیں رہی۔ فوج کو اکٹھا کرنے، لڑنے والے سپاہی ڈھونڈنے اور پلان بنانے میں دشواری رہی۔ لیکن 30 مئی کو ہندان پر برٹش فوج پہنچ چکی تھی جہاں پہلی لڑائی لڑی گئی۔ مرزا ابو بکر کی قیادت میں دریا کے پُل پر یہ جھڑپ ہوئی۔ اگرچہ برٹش نے مغل فوج کو پسپا کر دیا لیکن انہیں اندازے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جنرل ولسن خود اس جھڑپ میں بمشکل زندہ بچے۔ پہلی جون کو جنرل برنارڈ کی قیادت میں گورکھا فوج ان سے آن ملی۔ ان تک دہلی میں ہونے والے قتلِ عام کی خبر مزید مبالغہ آرائی کے ساتھ پہنچی اور برٹش غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ سفاکی سے سلوک ہونے لگا۔ ہیریٹ ٹٹلر لکھتی ہیں، “میں نے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نانبائی کو درخت سے پھانسی لگے دیکھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے  ناشتہ دیر سے پہنچایا تھا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزا مغل نے وقت ضائع نہیں کیا تھا۔ دہلی کے قلعے کی دیواروں کی مرمت کر دی گئی تھی۔ سلیم گڑھ میں آرٹلری نصب ہو چکی تھی۔ توپیں دیوار پر پہنچ چکی تھیں۔ دفاعی تعمیرات زور و شور سے کی جا رہی تھیں۔ دہلی کے شمال میں جی ٹی روڈ پر پرانی کاروان سرائے میں دفاعی پوزیشن متاثر کن تھی۔ دونوں اطرف میں دلدلی علاقے کے بیچ آرٹلری کی لائن اور مغرب میں پہاڑی۔ یہ ایک بہترین عسکری دفاعی پوزیشن تھی۔ مغل توپوں کا سامنا کئے بغیر یہاں سے نہیں گزرا جا سکتا تھا۔

یہ وہ مقام تھا جہاں برٹش فوج نے اہم معرکے میں کامیابی سے لڑائی لڑی اور مغل توپوں پر قبضہ کر لیا اور یہ اس جنگ کا بہت اہم واقعہ تھا۔ سات جون کو صبح ساڑھے چار شروع ہونے والی یہ جھڑپ شام پانچ بجے تک جاری رہی اور یہ علاقہ برٹش کے پاس تھا۔ ظہیر دہلوی بیان کرتے ہیں، “سڑک خون سے تر تھی۔ جیسے ہولی میں کسی نے سرخ رنگ پھینکا ہو۔ مجھے سپاہی سوار نظر آئے جن کے سینے پرگولی لگی تھی۔ آنتیں نکلی پڑی تھیں۔ ایک ہاتھ پستول پر، ایک گھوڑے کی رکاب پر۔ چہرہ ایسے جیسے تکلیف کا نشان نہ ہو۔ میں آج تک حیران ہوتا ہوں کہ انسان اتنا زخمی ہو کر زندہ کیسے رہ سکتا ہے چہ جائیکہ میدان سے چار میل دور سواری بھی کر کے آ گیا ہو۔ میں نے ایک اور فوجی کو دیکھا جو گھوڑا تیز دوڑا رہا تھا۔ اس کے زخم سے خون ایسے ابل رہا تھا جیسے فوارہ چھوٹ پڑا ہو۔ اس کے پیچھے ایک اور جس کا بازو کٹ گیا تھا۔ میں نے بہت سے زخمی دیکھے جو کیمپ ہسپتال کی طرف جا رہے تھے”۔

سات جون کو جنرل ولسن کی فوجیں دہلی سے آٹھ میل دور علی پور کے کیمپ میں پہنچ چکی تھیں۔ اس سے اگلے روز برطانوی پوزیشنوں سے گولے برسنا شروع ہو گئے۔ دہلی اب حملے کی زد میں تھا۔

دہلی سے جواب فوری آیا۔ موثر اور ایکوریٹ۔ برٹش پوزیشنوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ یہ برٹش کے لئے غیرمتوقع تھا۔ جان ایڈورڈ روٹن کے مطابق،

“ہمیں اب احساس ہوا کہ دہلی کو اتنی فوج سے فتح کرنے کا خواب دیوانگی تھی۔ ہم دہلی کا محاصرہ کرنے آئے تھے۔ ہمیں جلد ہی سبق مل گیا کہ حقیقت میں ہم  محاصرہ کرنے والے نہیں، بلکہ خود محصور تھے”۔

دہلی پر قبضے کی باقاعدہ جنگ شروع ہو چکی تھی۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


ساتھ لگی تصویر شاہی محل کے نوبت خانے کی ہے۔ محل میں اس جگہ پر کئے گئے 52 شہریوں کے قتلِ عام کا قصوروار بہادر شاہ ظفر کو ٹھہرایا گیا۔

Tuesday, August 1, 2023

عجیب ترین چوری کا واقعہ

 عجیب ترین چوری کا واقعہ...

 ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔ 

سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں ۔

اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔

 سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔

 شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا: آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔

سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی ، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔

سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔

 لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔ 

لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے، کثرت علم ، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔

لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں ۔


 سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ؛ شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لیے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔ 

 شیخ نے سنار سے کہا: کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔

 جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔


  اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے اور سنار رو دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ تو چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ۔سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔


 ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔

پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔

پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔


 آج ہمارے ملک کا بالکل یہی حال ہے، ہر چار سال بعد چور بھیس بدل کر ہمارے پاس آتا ہے اور لوٹ کر نکل لیتا ہے ۔

عربی ادب سے ماخوذ قصہ

(منقول)

میٹرک کے بعد کیا کریں؟

 _*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_

_*"میٹرک " کے بعد کیا کریں؟*_


     _*کون کون سے شعبے اور مواقع ھیں۔*_

--+++---+++---+++--

آجکل میٹرک کے امتحانات کے بعد بچے اور حتیٰ کہ والدین بھی مناسب رہنمائی اور علم نا ھونے کے باعث فیصلہ نہیں کر پاتے کہ وہ آگے بچوں کو کس شعبے کی تعلیم دلوائیں۔

 طالب علموں کی اکثریت کیرئیر کے انتخاب میں مدد نہ ہونے کی وجہ سے پریشان نظر آتی ہے۔ طلبہ کے سامنے بہت سارے راستے ہوتے ہیں اور انہیں مناسب سمت میں رہنمائی نہیں ملتی۔

بہت سارے طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو میٹرک کے بعد والے تمام شعبہ جات سے ہی نا واقف ہوتے ہیں۔


گروپ میں پچھلے دنوں سے کافی سوالات بھی اس بارے پوچھے گئے ھیں۔لہٰذا ذیل میں میٹرک کے بعدانٹرمیڈیٹ کی سطح کے مختلف شعبہ جات کامختصرتعارف پیش کیا جا رھا ھے، تاکہ طلبا کو اپنی مرضی کا شعبہ چننے میں آسانی ہوسکے۔

جو درج ذیل ہیں:


ایف ایس سی   

  ایف اے

آئی سی ایس

آئی کام/ڈی کام

اے لیول

  ڈی اے ای

پیرامیڈیکل کورسز


سائنس گروپ (FSc)


ایف ایس سی میں انگریزی، اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے مضامین لازمی طورپرپڑھائے جاتے ہیں اورباقی مضامین کا مختلف گروپوں میں ہم خودسے انتخاب کرتے ہیں۔

F.Sc

میں عموماً طلبا کادوبڑے شعبوں کی طرف رجحان پایاجاتاہے اوریہ بنیادی شعبے مندرجہ ذیل ہیں۔

 پری میڈیکل

 پری انجینئرنگ


1۔ پری میڈیکل گروپ

جیسا کہ نام سے ظاہرہے کہ اس گروپ میں جانے والے میڈیکل یا بائیولوجی کے دیگر ذیلی شعبہ جات کی طرف جاتے ہیں۔ایف ایس سی پری میڈیکل گروپ کے لازمی مضامین مندرجہ ذیل ہیں

فزکس – کیمسٹری – بیالوجی

طلبا کو میٹرک میں ان تینوں مضامین کابنیادی تعارف کروا دیا جاتا ہے اور ایف ایس سی پری میڈیکل اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعدان کے پاس ایم بی بی ایس کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔

ایف ایس سی پری میڈیکل کے بعد ایم بی بی ایس کے علاوہ دو اور شعبے بھی ہیں جن کو بیچلر آف ڈینٹل سرجری(BDS) اور ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن (DVM) کا نام دیاجاتا ہے۔

بی ڈی ایس کے طالب علم دانتوں کے سپیشلسٹ بنتے ہیں اورڈی وی ایم کے طالب علم جانوروں کے ڈاکٹربنتے ہیں۔ ان شعبہ جات کے علاوہ پری میڈیکل میں انٹرمیڈیٹ کے بعد چار سالہ بی ایس آنرز بھی ہوتا ہے جو بائیولوجی کے بیسیوں ذیلی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔جن میں زوالوجی، باٹنی، بائیو ٹیکنالوجی، ڈیری فارمنگ ایڈ فشریز، الائیڈ ہیلتھ سائنسز، ایگریکلچر، اینوائرنمینٹل سائنسز وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر آف فارمیسی اور ڈاکٹر آف فزیوتھراپی میں بیچلر کی ڈگری5سال پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ادویات سازی اور ان کے استعمال کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔


2۔ پری انجینئرنگ گروپ

پری انجینئرنگ میں ایف ایس سی کرنے کے بعد طالبعلم کے پاس کیرئیر بنانے کے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔

پری انجینئرنگ کے مضامین مندرجہ ذیل ہیں

 فزکس – کیمسٹری – ریاضی

ایف ایس سی پری انجینئرنگ کے متعدد شعبوں کے راستے آپ پر کھل جاتے ہیں۔ ان میں سول ، مکینیکل، الیکٹریکل، میکاٹرونکس، الیکٹریکل پاور، کیمیکل سافٹ ویئر انجینئرنگ وغیرہ سر فہرست ہیں۔

انجینئرنگ کے علاوہ بھی بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ کمپیوٹر سائنس، کمیسٹری، فزکس، میتھ میٹکس، ڈبل میتھ فزکس اور اس کے بے شمار راستے آپ کے سامنے ہوں گے۔ جبکہ آپ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے بعد آرٹس کے بھی تمام مضامین میں گریجوایشن کر سکتے ہیں۔


جنرل سائنس گروپ :

ایف ایس سی پری میڈیکل اورپری انجینئرنگ کے علاوہ جنرل سائنس گروپ میں بھی طلبا کی کثیرتعداد داخلہ لیتی ہے۔ ایسے طلبا جو جنرل سائنس گروپ میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے خواہش مند ہوں،وہ لازمی مضامین انگریزی، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان کے علاوہ مختلف اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے ہیں،جن میں ریاضی ، شماریات، اکنامکس،جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔یہ طلبا آگے چل کر مختلف ڈگری کورسزمیں داخلہ لیتے ہیں۔


 آرٹس گروپ(FA):

ایف اے کے طلبا کولازمی مضامین کے علاوہ اسلامیات اختیاری،نفسیات،فزیکل ایجوکیشن، پنجابی، فارسی، عربی، اردو ادب اور سوکس وغیرہ کے مضامین میں کوئی سے تین مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایف اے کرنے کاکوئی فائدہ نہیں، یہ بات بالکل غلط ہے۔ درحقیقت انسان جس شعبے میں محنت کرے،اس میں اپنی پہچان بناسکتا ہے۔ بڑے بڑے اہم عہدوں پرفائزایف اے، بی اے کرنے والے لوگوں نے پاکستان میں سول سروسز (CSS) اور صوبائی انتظامی شعبہ جات(PMS) کے مقابلہ جاتی امتحانات پاس کرکے یہ عہدے حاصل کیے اورحکومت میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ایف اے کرنے کے بعدبی اے میں داخلہ لینے والے طلبا صحافت ،درس وتدریس اور مختلفانتظامی شعبہ جات سے منسلک ہوتے ہیں۔


کمپیوٹر سائنس گروپ(ICS):

”گلوبل ویلیج” ہونے کے تصورمیں کمپیوٹر کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کمپیوٹر کی تعلیم میں ابتدائی سطح پرآئی سی ایس کروایاجارہاہے جوکہ انٹرمیڈیٹ کی سطح کی تعلیم ہے۔ اس میں طلبا وطالبات لازمی مضامین کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ، ریاضی اور فزکس یا Statistics کے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔ آئی سی ایس کرنے والے طلبا اس کے بعد 3سالہ بی سی ایس (BCS)یا چار سالہ بی ایس سی ایس((BSCS، بی ایس آئی ٹی(BSIT) یا سافٹ ویئر انجینئرنگ میں داخلہ لیتے ہیں۔


 کامرس گروپ(I.Com):

کامرس یابزنس آج کے دور کااہم ترین شعبہ ہے۔بزنس کے مختلف اسرار و رموز اورداؤپیچ سکھلانے کے لئے انٹرمیڈیٹ کی سطح سے ہی آئی کام کے کورس کا اہتمام کیا گیاہے۔I.Comکے طلبا مختلف مضامین میں لازمی مضامین انگریزی ، اردو، اسلامیات،مطالعہ پاکستان کے علاوہ اختیاری مضامین ریاضی،اکاؤنٹس،اکنامکس، جغرافیہ اور بینکنگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ I.Comکے طلبا 2سالہ I.Com کے بعد BIT,BBIT,BBA, B.Com وغیرہ کے کورسزمیں داخلہ لیتے ہیں۔


 ڈپلومہ گروپ (D.A.E):

میٹرک کے بعدطلبا کے لیے صحیح کورس کاانتخاب بہت بڑا مسئلہ ہے اورسمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں پڑھا جائے اورکیا پڑھا جائے۔اس مسئلہ کاشکارطلبا کے لیے جوخاص طورپر انجینئرنگ کا رجحان رکھنے والے ہیں، انجینئرنگ میںتعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کاایک راستہ D.A.E بھی ہے۔ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ جو کہ میٹرک کے بعد(صرف سائنس سٹوڈنٹس کے لیے)3 سال پر محیط ہے اوراس کومکمل کرنے کے بعد یہ ڈپلومہ F.Sc کے برابر ہوتاہے۔

پاکستان میں ڈی۔اے ۔ای درج ذیل ٹیکنالوجیز میں کروایا جاتا ہے۔

 مکینیکل انجینئرنگ

 الیکٹریکل انجینئرنگ

 الیکٹرونکس انجینئرنگ

 سول انجینئرنگ

 آٹواینڈ فارم انجینئرنگ

 انفارمیشن ٹیکنالوجی

 شوگرٹیکنالوجی

فوڈٹیکنالوجی

 انسٹرومنٹ ٹیکنالوجی

 پٹرول اینڈ ڈیزل ٹیکنالوجی

 ریفریجریشن اینڈ ائیرکنڈیشنر

 کیمیکل ٹیکنالوجی

علاوہ ازیں اس طرح کی بہت سی ٹیکنالوجیز میں ڈی اے ای کروایا جارہاہے۔

ڈپلومہ کرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ یہ ٹیکنیکل کورس ہوتا ہے اورسرکاری سیکٹر میں ڈپلومہ کرنے کے بعد 14 سکیل تک نوکری مل جاتیہے۔D.A.E کرنے کے بعداگرمزیدپڑھائی کاارادہ ہو تو آپ اپنے متعلقہ شعبہ میںبی ایس انجینئرنگ اوربی ایس ٹیکنالوجی کرسکتے ہیں۔

D.A.E

اردواورانگلش دونوں زبانوں کے علاوہ گورنمنٹ اورپرائیویٹ دونوں قسم کے اداروں میں کروایا جاتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالجز سے نکلنے والے ڈپلومہ ہولڈرز پرائیویٹ کی نسبت زیادہ قابل ہوتے ہیں اور ان کی قدربھی انڈسٹری میں زیادہ ہوتی ہے۔

کروانے والے چندبڑے اورمعیاری ادارے درج ذیل ہیں۔ D.A.E

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،ساہیوال

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،لاہورریلوے روڈ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،لاہوررائے ونڈ روڈ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،بہاولپور

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،ملتان

گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،فیصل آباد

 ٹیچر ٹریننگ کالج، فیصل آباد

گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول پور،ڈیرہ غازیخان

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،بوریوالہ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، کمالیہ

 مکینکل اینڈالیکٹریکل کالج ،راولپنڈی

 G.C.Tرسول کالج ،منڈی بہاؤالدین

 گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ،سرگودھا

 سویڈش پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ،گجرات

 گورنمنٹ کالج آف ٹےکنالوجی ،سیالکوٹ

خیبر پختونخواہ کے ڈی اے ای کروانے والے اہم ادارہ جات

 AIMCSپشاور

 ASAایبٹ آباد سکول آف آرٹ

 احمد زئی پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ،بنوں

 الفلاح انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کوہاٹ

ان کے علاوہ درجنوں ادارے خیبرپختونخواہ اور سندھ میں بھی ڈی اے ای کی تعلیم کے لیے موجود ہیں۔

بلوچستان کے ڈی اے ای کروانے والے اہم ادارہ جات۔

 پولی ٹیکنیک کالج کوئٹہ

 بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی


داخلہ کی شرائط

ڈی اے ای کے لیے سائنس کا طالب علم ہونا لازمی ہے اور تمام سرکاری کالجوں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیاجاتاہے ۔

ڈپلومہ بہت سے پرائیویٹ اداروں میں بھی کروائے جاتے ہیں لیکن ان میں سرکاری اداروں کی نسبت مشینری اور پریکٹیکل کے آلات بہت کم ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری کالجوں کے طلبا کوفیلڈ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

سرکاری کالجوں کی سالانہ فیسیں بھی کم ہوتی ہیں جبکہ ان کی نسبت پرائیویٹ اداروں کی فیسیں زیادہ ہوتی ہیں۔

ڈپلومہ کروانے والاایک بورڈ ہرصوبے میں موجود ہے۔ جیسے پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ،خیبر پختونخوا بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ،بلوچستان بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن وغیرہ۔اسی طرح تمام صوبوں میں بورڈزیہ کام سرانجام دے رہے ہیں اورتمام پرائیویٹ اداروں کاان سے الحاق ہونا ضروری ہے۔


 پیرامیڈیکل کورسز:

پیرامیڈیکل کورسزسے مراد وہ کورسز ہیں جو ڈاکٹرز کے ساتھ بطورِمعاون کام کرنے والے اور ہسپتال کوچلانے والے افراد تیار کرنے کے لیے کروائے جاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے کورسز ہوتے ہیں۔ ایک تواسسٹنٹ اور دوسرے ٹیکنیشنزہوتے ہیں۔ 


اسسٹنٹ جیساکہ ڈسپنسرز، آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی، لیبارٹری اسسٹنٹ وغیرہ ،ان کا سکیل 6 ہوتاہے۔ صوبہ سندھ میں اسسٹنٹ کوسکیل 9اور ٹیکنیشنز کو سکیل 11 دیا جاتاہے۔

یہ کورسز عموماً میٹرک کے بعد جبکہ کچھ ایف ایس سی کے بعدہوتے ہیں۔ پیرامیڈیکل کورسزمیں اہلیت کے لیے میٹرک سائنس (بیالوجی) ہوناضروری ہے اور سائنس مضامین میں سے 50% نمبرز ہوناضروری ہیں۔

ان کورسزکے لیے بہت سے سرکاری ادارے اور ہسپتال موجودہیں۔جبکہ بہت سے پرائیویٹ ادارے بھی رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اداروں میں داخلہ فیس تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اورٹریننگ بھی اچھی دی جاتی ہے جبکہ پرائیویٹ اداروں میں طلبا کوبھاری فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں جوکہ 30ہزار سے 60ہزار تک ہوتی ہیں۔


ویسے توبہت سے سرکاری ادارے اورہسپتال ہیں جن میں یہ کورسزکروائے جاتے ہیں لیکن پانچ ٹیکنیکل ادارے بالخصوص انہی کورسزکے لیے بنائے گئے ہیں۔ جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔

 پیرامیڈیکل سکول آف فیصل آباد

پیرامیڈیکل سکول آف ساہیوال

 پیرامیڈیکل سکول آف بہاولپور

پیرامیڈیکل سکول آف سیالکوٹ

پیرامیڈیکل سکول آف سرگودھا


ان کے علاوہ مختلف سرکاری ہسپتالوں میں بھی یہ کورسز کروائے جاتے ہیں۔جن میں لاہورمیوہسپتال، گنگا رام ہسپتال، سروسز ہسپتال، جنرل ہسپتال،سوشل سکیورٹی ہسپتال، شیخ زید ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور پمز ہسپتال اسلام آباد وغیرہ شامل ہیں۔جوکورسز پیرامیڈیکس کے تحت کروائے جاتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔


 ڈسپنسر

آپریشن تھیٹرٹیکنالوجی

 لیب ٹیکنیشن

 ریڈیوگرافر

ڈینٹل ٹیکنیشن

 انستھیزیاٹیکنیشن

 ڈائیلیسز ٹیکنیشن

 انجیوگرافک ٹیکنیشن

 میڈٹیکنیشن

 اسسٹنٹ فارمسٹ


ان کورسزمیں سے چندایک کوچھوڑکر باقی سب کورسز شیخ زیدہسپتال (لاہور) میں کروائے جاتے ہیں جبکہ باقی ہسپتالوں میں ان میں سے کچھ کورسزکروائے جاتے ہیں۔ ڈسپنسر کورس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال لاہورمیں بھی کروایا جاتا ہے۔ 

جبکہ انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میں بی ایس سی لیبارٹری اور میو ہسپتال میں ڈینٹل ٹیکنالوجسٹ جوبی ایس سی کے برابر ہوتاہے ،بھی کروایا جاتاہے۔ ان اداروں میں سے جو مجموعی طور پر سب سے اچھی کارکردگی دکھارہے ہیں،وہ پیرامیڈیکل سکول ساہیوال اوردوسرا شیخ زید ہسپتال لاہور ھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تحریر وترتیب!

عتیق الرحمن-


نوٹ: اس تحریر کی تیاری میں tribe Republic ویب سائیٹ پر موجود مواد کی مدد لی گئی ھے۔


مذکورہ انفارمیشن۔۔۔ مفاد عامہ کی خاطر شئیر کی گئی ھے