Thursday, August 3, 2023

مغلیہ زوال قسط نمبر 18: خون کا بدلہ

 _*مغلیہ زوال 18*_


_*خون کا بدلہ*_


اگست کے آغاز تک ملٹری توازن واپس برٹش کے پاس جا چکا تھا۔ اگرچہ ان کی تعداد شہر کی فوج سے بہت کم تھی لیکن شہر سے آنے والے حملوں کی تعداد اور شدت میں کمی آ گئی تھی۔ انقلابی سپاہی اور لیڈرشپ میں سے کئی دہلی چھوڑ رہے تھے۔ اس بار گریٹ ہیڈ نے اپنی بیوی کو خط میں لکھا، “ہمارے دفاع کی چٹان سے ٹکرانے والی لہروں میں ویسی قوت نہیں رہی”۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 18


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانوی کیمپ کا موڈ بدل گیا تھا۔ اب انتقام کی بات ہو رہی تھی۔ دہلی والوں کا قتلِ عام کھلم کھلا اور پرجوش طریقے سے ڈسکس کیا جاتا تھا اور یہ بھی کہ شہر کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ برٹش پریس میں  کانپور میں بی بی گڑھ میں 73 خواتین اور 124 بچوں کے برٹش ہونے کے جرم میں کئے گئے قتل کو نمایاں جگہ ملی تھی۔ برٹش طیش میں تھے۔ دہلی سے جان بچاکر فرار ہو جانے والے جارج ویگنٹریبر نے لکھا۔ “دلی کی آلودہ دیواروں کو مسمار کئے جانا ضروری ہے تاکہ ان کے آسیب کو ختم کیا جا سکے اور ان کے کالے کرتوتوں کی سیاہی ختم کی جا سکے۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ انصاف ہو گا۔ خون کا بدلہ خون ہے۔ دہلی کے بادشاہ کے تخت پر برٹش افسر بیٹھے گا۔ بادشاہ کے گلے میں رسی ہو گی اور اسے انصاف کی خاطر قربان کر دیا جائے گا۔ اور اس کے بعد ۔۔ دہلی میں خاموشی کا راج ہو گا۔ موت کی خاموشی۔ برٹش انصاف کے تباہ کن طوفان میں ہر ہندوستانی بہہ جائے گا”۔


پانچ اگست کو یہ انتقام ایک قدم قریب آ گیا۔ برٹش دہلی فیلڈ فورس تک خبر پہنچی کہ کمک کے لئے بڑی فوج کا پہلا دستہ پنجاب سے روانہ ہو گیا ہے۔ اس کے لئے لارنس نے ایک بڑا جوا کھیلا تھا۔ پنجاب میں موجود تقریباً تمام یورپی فوجی اس پہلے قافلے کا حصہ تھے۔ مقامی رضاکاروں کی بھی تعداد تھی۔ یہ ایک میل لمبا قافلہ تھا جس میں بھاری توپخانہ بھی شامل تھا۔ یہ فیروزپور سے نکل کر انبالہ تک پہنچ چکا تھا۔ جی ٹی روڈ سے چند روز کی مسافت پر تھا۔ لارنس نے یہ جوا اس امید پر کھیلا تھا کہ وسطی ہندوستان میں لڑائی کے دوران مغربی ہندوستان میں لاہور سے پشاور تک کا علاقہ پرسکون رہے گا۔ 


اور انتقام پسند برٹش کے لئے ایک اور بہترین خبر تھی۔ ایک ہزار برطانوی، 600 پنجابی مسلمان سواروں (جن میں اکثریت ملتان سے تھی)، 1600 سکھوں اور توپخانے کی قیادت پشاور سے آنے والے برٹش فورس کے سفاک ترین افسر جان نکلسن کر رہے تھے۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تریموں گھاٹ پر بغاوت کرنے والوں کے پورے دستے کا صفایا جس طریقے سے نکلسن نے کیا تھا، اس کا چرچا دور تک گیا تھا۔ یہ پورا دستہ سیالکوٹ سے دہلی کی طرف جا رہا تھا کہ نکلسن نے دریائے راوی کے کنارے گھات لگائی تھی۔ باغی سپاہیوں کے پیچھے دریا تھا اور آگے نکلسن کا دستہ۔ انہوں نے ایک بھی سپاہی کو جیتا نہیں چھوڑا تھا۔ مون سون میں بپھرے راوی میں چھلانگ لگانے کا مطلب موت تھا۔ کچھ کے لئے یہی واحد طریقہ بچا تھا۔ نکلسن قیدی بنانے کے قائل نہ تھے۔ اس روز بھی بہت کم قیدی بنائے تھے۔ اور یہ قیدی پکڑے جانے کے ساتھ ہی گولی کا نشانہ بن گئے تھے۔ نکلسن اب دہلی کی طرف آنے والے پہلے بڑے دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ 


نکلسن ایک سائیکوپاتھ تھے، اذیت پسند اور ہندوستانیوں سے نفرت رکھنے والے۔ گورنر جنرل کیننگ کے مطابق “نکلسن انتقام کا دیوتا ہے، وہ دشمن کے دل میں دہشت ہے”۔ لیفٹینیٹ اومانی نے ان کی اذیت پسندی کو دیکھا تھا اور شاک میں رہ گئے تھے۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھا کہ ایک باورچی لڑکے کو انہوں نے اس لئے مارا تھا کہ وہ مارچ کرنے والوں کی لائن کے آگے آ گیا تھا۔ جب اس لڑکے نے مار پڑنے پر شکوہ کیا تو دوسری بار پڑنے والی مار کے بعد جانبر نہ ہو سکا۔ اپنی فوج کو بھی قیدیوں کو تشدد کے بارے میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ اومانی کی ڈائری میں اس کے کئی ہولناک واقعات درج ہیں۔


چودہ اگست 1857 کو ولسن دہلی کے باہر پہنچ گئے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکلسن کی دوسری خاصیتوں میں انتھک محنت اور تفصیل میں جا کر ہر چیز کو دیکھنا تھا۔ برٹش جنرل ولسن کو نکلسن اور نکلسن کو جنرل ولسن بالکل پسند نہیں آئے۔


دہلی سے برٹش فورس پر حملے کم ہو چکے تھے۔ برٹش کو پسند کرنے والے پنجاب کے راجاوٗں کی طرف سے برٹش فوج کو تحائف اور کھانے پینے کا سامان ملنا شروع ہو گیا تھا۔ جھینڈ کے راجہ نے انگریزوں کے لئے خوراک اور روزمرہ کی اشیاء کی سپلائی بیس بنا دی تھی۔ انبالہ سے چاکلیٹ، ٹوتھ پاوڈر اور دوسرا سامان۔ جہانگیر اور کاوس جی سستی بئیر پہنچانے لگے تھے۔ 


ہیضہ ابھی بھی روز کی جانیں لے رہا تھا۔ مردہ جانوروں اور انسانوں کی لاشوں سے اٹھنے والا تعفن برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن برٹش خندقوں میں حوصلے اب بلند تھے۔ دہلی کی طرف سے ان کے لئے اچھی خبریں آ رہی تھیں۔ کئی کی نگاہیں اب دہلی کے مالِ غنیمت پر لگی تھیں۔ کہیں سے ایک دو ہیرے اچک لیں گے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔ دہلی ہندستان کا خوشحال ترین شہر تھا۔ فوجی اس کی دولت سے فیض یاب ہونے کے خواہشمند تھے۔ جب کہ کئی برٹش، جن کے خاندان کے افراد قتلِ عام میں مارے گئے تھے، انتقام کی آگ بجھانا چاہتے تھے۔


مئی سے جاری اس جنگ کے فیصلہ کن مراحل قریب آ رہے تھے۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ساتھ لگی تصویر میں نکلسن کا مجسمہ ہے جو دہلی میں نصب رہا۔ انڈیا کی آزادی کے بعد اس کو اتار کر برطانیہ بھجوا دیا گیا۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 16: جنگ کا توازن

 _*مغلیہ زوال 16*_


_*جنگ کا توازن*_


دلی کا محاصرہ کرنے والے برٹش فوجی اچھے حال میں نہیں تھے۔ اگرچہ ان کی خوراک کی سپلائی متاثر نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے علاوہ ان کے لئے صورتحال مخدوش تھی۔ روز کے حملوں اور توپ کے گولوں کے علاوہ ان کا ایک دشمن سورج تھا۔ دہلی کی گرمی میں سورج سے بچنے کے لئے خیموں کے سوا کوئی پناہ نہیں تھی۔ کئی لوگ سن سٹروک سے مارے گئے۔ پانی صرف جمنا نہر سے ملتا تھا اور یہ پانی ہے یا مٹر کی یخنی؟ اس میں فرق معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ سیوریج کا کوئی انتظام نہیں تھا۔


مغلیہ زوال


مرنے والوں کے سیاہ ہوتے اور بدبو دیتے جسم بڑھ رہے تھے۔ علی پور سے کیمپ تک موت ہر صورت میں موجود تھی۔

ایک اور مسئلہ مکھیوں کا تھا۔ خیموں میں، کھانے میں۔ روٹن لکھتے ہیں،

“کھانے کے اوپر مکھیوں کی تہہ ہوتی تھی۔ چائے کے کپ پر بھی مکھیاں بھنبھناتی رہیتیں۔ اگر احتیاط نہ کریں تو یہ اوپر سے مکھیوں بھر جاتا تھا جو اس کے اوپر تیر رہی ہوتی تھیں۔کچھ مردہ اور کچھ قریب المرگ”۔

چارلس گرفتھ ایک نوجوان لیفٹیننٹ تھے، لکھتے ہیں۔

“آپ کی آنکھ گولے یا بِگل کی آواز سے نہیں، مکھیوں کے منہ پر بیٹھنے سے کھلتی تھی۔ مرے ہوئے لوگوں کی لاشیں انہیں مرغوب تھیں۔ ہوا بدبودار تھی، گرمی شدید تھی۔ اور ہمارے کیمپ میں اس وجہ سے روز لوگ مر رہے تھے”۔

یہ مزید خراب اس وقت ہو گیا جب 27 جون کو مون سون کی تیز بارش نے آن لیا۔ برٹش آرمی کیمپ کیچڑ اور بدبودار دلدل بن گیا۔ بچھو اور سانپ بلوں سے نکل آئے۔ رات کی نیند بھی مشکل ہو گئی۔ اور پھر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی۔ میڈیکل کی سہولیات مفقود تھیں۔ زخمی ہو جانے والے زندہ نہیں بچتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جولائی آیا اور برٹش اپنے کیمپ کو بہتر بناتے گئے۔ ہیضے سے مرنے والوں کی تعداد انقلابیوں کے ہاتھوں مرنے والوں سے زیادہ تھی۔ 5 جولائی کو برٹش آرمی کے کمانڈر انچیف جرنل برنارڈ کا انتقال بھی ہیضے کے ہاتھوں ہوا۔ اس سے پہلے جنرل اینسن مئی میں بھی ہیضے سے فوت ہوئے تھے۔ نئے سربراہ جنرل تھامس ریڈ تھے جو دو ہفتوں میں ہی بیمار ہو کر میدان چھوڑ گئے اور قیادت 17 جولائی کو جنرل ولسن کے پاس آ گئی۔

اگلے روز ولسن نے لاہور میں جان لارنس کو خط لکھ کر معاملات کی سنجیدگی کا بتایا اور یہ کہ کسی بھی قیمت پر فوج دہلی بھیجی جائے اور جلد ایسا نہ کیا دہلی میں شکست ہوتی نظر آ رہی ہے۔ امداد بہت سی چاہیے، جلد چاہیے اور پنجاب سے کمک بھجوائی جائے۔ کم از کم ایک یورپی رجمنٹ، ایک سکھ رجمنٹ اور ایک پنجابی رجمنٹ۔ ورنہ انہیں جلد پسپا ہو کر کرنال کا رخ کرنا پڑے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو گا۔ ( یہ کانفیڈنشل خط ریکارڈ میں محفوظ ہے)۔

ولسن کی مایوسی کی وجہ یکم جولائی کو دہلی میں بریلی بریگیڈ کی آمد تھی۔ اس میں چھ سو آرٹلری، سات سو سوار اور 2300 سپاہی تھے۔ چودہ ہاتھی، تین سو گھوڑے، ایک ہزار بیل گاڑیاں، ٹینٹ، اسلحہ اور سپلائی، خزانہ اور ان کے پیچھے تین سے چار ہزار غازی۔

دو جولائی کو یہ دہلی میں کلکتہ گیٹ سے داخل ہوئے تھے۔ ان کا شاندار استقبال ہوا تھا۔ ملکہ زینت محل کے والد نواب قلی خان نے مٹھائی اور پھل تقسیم کئے تھے۔ انہوں نے ڈیرہ دہلی دروازے کے باہر جمایا کیونکہ شہر میں ان کے رہنے کی جگہ نہیں تھی۔

بریلی بریگیڈ میں ایک اور بہت اہم چیز لیڈرشپ تھی۔ بڑی بڑی مونچھوں اور لمبی قلموں والے آرٹلری کے صوبیدار بخت خان جنہوں نے انگریزوں کی طرف سے افغانوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں اور ان جنگوں کے ہیرو تھے۔ وہ موثر ملٹری قائد کی شہرت رکھتے تھے۔ بخت خان محاصرہ کرنے والی فوج کے کئی افسران کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ کرنل جارج بورشے نے ان سے فارسی پڑھی تھی۔ دوسرے لیڈر مولوی سرفراز علی تھے۔ انہیں امامِ مجاہدین کہا جاتا تھا۔ دہلی شہر اور دربار کو اچھی طرح جانتے تھے۔ دہلی میں دارالبقا میں جیومیٹری اور الجبرا پڑھاتے رہے تھے۔ بریلی بریگیڈ کے مجاہدین کے سربراہ تھے۔ یہ دو لوگ جہادیوں اور دہلی کی اشرافیہ کو اکٹھا کر سکتے تھے۔

آمد سے اگلے روز بخت خان اور مولوی سرفراز کو محل میں ریاستی پروٹوکول کے ساتھ بلایا گیا۔ یہاں پر انہیں فرزند اور صاحبِ عالم کے خطابات ملے اور مرزا مغل کو ہٹا کر بخت خان کو کمانڈر نچیف بنا دیا گیا۔ مرزا مغل کو انتظامی امور دیکھنے کا کام سونپا گیا۔

اگلے دن فوجی اصلاحات کے تھے۔ تنخواہوں کا بندوبست، لوٹ مار کرنے والوں سے بازپرس اور سزائیں، اسلحے کا سٹور سسٹم۔ تین انگریز جاسوس پکڑے گئے اور ان کو سزائے موت دی گئی۔ فوج کے تمام امور شہزادوں سے لے لئے گئے۔ فوجی پریڈ جو دہلی گیٹ سے اجمیری گیٹ تک ہوا کرتی تھی، شروع کی گئی۔

نئی ملٹری سٹریٹیجی آئی۔ فلینک سے حملے کرنے میں تین جولائی کو جزوی ناکامی ہوئی لیکن یہ نیا طریقہ تھا۔ روٹا سسٹم شروع ہوا تا کہ مختلف سپاہی مختلف وقتوں میں کام کریں اور برٹش کو سکون کا سانس نہ لینے دیا جائے۔ فوج کے تین حصے کئے گئے تا کہ باری باری انگریزوں کو الجھایا جائے۔ کوئی دن خالی نہ جائے۔

چند روز میں پانسہ بدل رہا تھا۔ برٹش آرمی تھک چکی تھی، امداد کا انتظار کر رہی تھی، جس کے بغیر مقابلے کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر بخت خان کے مجسمے کی، جو دہلی کے لال قلعہ میوزیم میں کھینچی گئی۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 14: نازک صورتحال

 _*مغلیہ زوال 14*_


_*نازک صورتحال*_



شہر کے کوتوال معین الدین نے 52 انگریز شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لئے حراست میں لیا تھا اور انہیں شاہی محل میں رکھا تھا۔ یہ ان کی جان بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ سپاہیوں کو جب بھنک پڑی تو انہوں نے حکیم اور خواجہ سرا پر الزام لگایا کہ یہ انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ان کی جان بچانا چاہ رہے ہیں۔ قیدیوں کو شاہی قید خانے سے نکال کر لاہور دروازے کے پاس لے جا کر نوبت خانے کے میدان میں پیپل کے درختوں سے باندھ دیا گیا اور ان پر آوازے کسے جانے لگے۔ انہیں ذبح کرنے کی تیاری ہونے لگی۔

بادشاہ اور درباری ششدر کھڑے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا، “مسلمان الگ ہو جائیں اور ہندو الگ۔ اور جا کر اپنے اپنے مذہبی راہنماوں سے جا کر پوچھیں کہ کیا بےبس مردوں، خواتین اور بچوں کو ذبح کر دینے کا  انہیں کوئی اختیار ہے؟ اس طریقے سے قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی”۔ سعید مبارک شاہ لکھتے ہیں کہ “بحث بڑھتی گئی۔ پھر بادشاہ رو پڑے اور کہا کہ اگر یہ ظلم کیا گیا تو خدا کا قہر ہم پر نازل ہو گا۔ کوئی بے قصوروں کو بھی اس طرح مارتا ہے؟ لیکن انقلابیوں نے ایک نہ سنی اور کہا کہ ہم انہیں قتل کریں گے اور آپ کے محل میں ہی کریں گے خواہ کچھ بھی ہو اور پھر ہم اور آپ انگریز کی نظر میں اس میں برابر کے قصوروار ہوں گے”۔

بات اتنی بڑھ گئی کہ حکیم احسن اللہ نے کہا کہ “اگر یہ ہونے دیا گیا تو انگریز دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے لیکن ان جذباتی لوگوں کے آگے عقل استعمال کی گئی تو وہ نہ انہیں زندہ چھوڑیں گے، نہ ہمیں اور نہ بادشاہ کو”۔

قیدیوں کو بٹھا کر گولیوں اور تلواروں سے مار دیا گیا اور لاشوں کو بیل گاڑیوں میں بھر کر دریا میں بہا دیا گیا۔ یہ واقعہ دہلی والوں کے لئے شدید بے چینی کا باعث بنا۔ دہلی اخبار نے تجزیہ دیا، “ان پوربیوں کے بھیانک ظلم کی وجہ سے ہم انگریز سے جیت نہیں پائیں گے”۔

ظفر کے لئے یہ قتلِ عام ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ سپاہیوں نے درست اندازہ لگایا تھا کہ برٹش اس کا انتقام لینے آئیں گے اور شاہی محل میں ہونے والے اس قتلِ عام کا ذمہ دار شاہی خاندان ٹھہرایا جائے گا۔ اس کو روکنے میں ناکامی نے بہادر شاہ ظفر کے لئے واپسی کا راستہ بند کر دیا تھا اور ان کے خاندان کو ختم کرنے کی مہر لگا دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپاہیوں کے آپس کے جھگڑے بھی معمول تھے۔ میرٹھ کے سپاہی اور دہلی کے سپاہیوں میں جھڑپیں ہو جاتی تھیں۔ اخبار کا تراشہ، “ہر کوئی بے بس ہے۔ کئی لوگ فاقہ زدگی کا شکار ہیں۔ شہر کے کوتوال کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے لیکن ان تلنگوں کو قابو کون کرے۔ دو کام بہت اہم ہیں۔ تنخواہوں کی ادائیگی اور تلنگوں کو لگام دینا”۔

انیس مئی کو ایک نئی نقسیم ابھر آئی۔ قدامت پرست مولوی محمد سید نے جامعہ مسجد میں خطبہ دیا اور کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا جہاد ہے اور اس کا پوسٹر لگوا دیا۔ ظفر نے اس کو اتروا دیا کہ یہ ہندووٗں کو غصہ دلائے گا۔ اگلے روز مولوی محمد سید اپنے گروپ کے ساتھ شاہی محل میں آ گئے کہ ہندو انگریزوں کے حمایتی ہیں اور ان کے خلاف بھی جہاد فرض ہے۔ محل میں ہندو اور مسلمانوں کی گرما گرم شروع ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر نے خاموش کروا کر کہا کہ ان کی نظر میں ہندو اور مسلمان برابر ہیں اور یہ خیال صرف حماقت ہے۔ پوربی سپاہیوں کی اکثریت ہندو ہے اور دہلی میں خانہ جنگی شروع نہیں کی جا سکتی۔ جہاد انگریز کے خلاف ہے۔ ہندو کے خلاف نہیں۔

اس موقع پر تو ظفر جہادیوں کو خاموش کروا کر واپس بھیجنے میں کامیاب رہے لیکن آٹھ ہفتے بعد جب شمالی ہندوستان سے آنے والے مجاہدین کے بڑی تعداد شہر میں اکٹھی ہو چکی تھی، ان کے لئے یہ روکنا بہت مشکل ہو جانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برٹش آرمی کے لئے دہلی پر پیشقدمی آسان نہیں رہی۔ فوج کو اکٹھا کرنے، لڑنے والے سپاہی ڈھونڈنے اور پلان بنانے میں دشواری رہی۔ لیکن 30 مئی کو ہندان پر برٹش فوج پہنچ چکی تھی جہاں پہلی لڑائی لڑی گئی۔ مرزا ابو بکر کی قیادت میں دریا کے پُل پر یہ جھڑپ ہوئی۔ اگرچہ برٹش نے مغل فوج کو پسپا کر دیا لیکن انہیں اندازے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ جنرل ولسن خود اس جھڑپ میں بمشکل زندہ بچے۔ پہلی جون کو جنرل برنارڈ کی قیادت میں گورکھا فوج ان سے آن ملی۔ ان تک دہلی میں ہونے والے قتلِ عام کی خبر مزید مبالغہ آرائی کے ساتھ پہنچی اور برٹش غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ سفاکی سے سلوک ہونے لگا۔ ہیریٹ ٹٹلر لکھتی ہیں، “میں نے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نانبائی کو درخت سے پھانسی لگے دیکھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے  ناشتہ دیر سے پہنچایا تھا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرزا مغل نے وقت ضائع نہیں کیا تھا۔ دہلی کے قلعے کی دیواروں کی مرمت کر دی گئی تھی۔ سلیم گڑھ میں آرٹلری نصب ہو چکی تھی۔ توپیں دیوار پر پہنچ چکی تھیں۔ دفاعی تعمیرات زور و شور سے کی جا رہی تھیں۔ دہلی کے شمال میں جی ٹی روڈ پر پرانی کاروان سرائے میں دفاعی پوزیشن متاثر کن تھی۔ دونوں اطرف میں دلدلی علاقے کے بیچ آرٹلری کی لائن اور مغرب میں پہاڑی۔ یہ ایک بہترین عسکری دفاعی پوزیشن تھی۔ مغل توپوں کا سامنا کئے بغیر یہاں سے نہیں گزرا جا سکتا تھا۔

یہ وہ مقام تھا جہاں برٹش فوج نے اہم معرکے میں کامیابی سے لڑائی لڑی اور مغل توپوں پر قبضہ کر لیا اور یہ اس جنگ کا بہت اہم واقعہ تھا۔ سات جون کو صبح ساڑھے چار شروع ہونے والی یہ جھڑپ شام پانچ بجے تک جاری رہی اور یہ علاقہ برٹش کے پاس تھا۔ ظہیر دہلوی بیان کرتے ہیں، “سڑک خون سے تر تھی۔ جیسے ہولی میں کسی نے سرخ رنگ پھینکا ہو۔ مجھے سپاہی سوار نظر آئے جن کے سینے پرگولی لگی تھی۔ آنتیں نکلی پڑی تھیں۔ ایک ہاتھ پستول پر، ایک گھوڑے کی رکاب پر۔ چہرہ ایسے جیسے تکلیف کا نشان نہ ہو۔ میں آج تک حیران ہوتا ہوں کہ انسان اتنا زخمی ہو کر زندہ کیسے رہ سکتا ہے چہ جائیکہ میدان سے چار میل دور سواری بھی کر کے آ گیا ہو۔ میں نے ایک اور فوجی کو دیکھا جو گھوڑا تیز دوڑا رہا تھا۔ اس کے زخم سے خون ایسے ابل رہا تھا جیسے فوارہ چھوٹ پڑا ہو۔ اس کے پیچھے ایک اور جس کا بازو کٹ گیا تھا۔ میں نے بہت سے زخمی دیکھے جو کیمپ ہسپتال کی طرف جا رہے تھے”۔

سات جون کو جنرل ولسن کی فوجیں دہلی سے آٹھ میل دور علی پور کے کیمپ میں پہنچ چکی تھیں۔ اس سے اگلے روز برطانوی پوزیشنوں سے گولے برسنا شروع ہو گئے۔ دہلی اب حملے کی زد میں تھا۔

دہلی سے جواب فوری آیا۔ موثر اور ایکوریٹ۔ برٹش پوزیشنوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ یہ برٹش کے لئے غیرمتوقع تھا۔ جان ایڈورڈ روٹن کے مطابق،

“ہمیں اب احساس ہوا کہ دہلی کو اتنی فوج سے فتح کرنے کا خواب دیوانگی تھی۔ ہم دہلی کا محاصرہ کرنے آئے تھے۔ ہمیں جلد ہی سبق مل گیا کہ حقیقت میں ہم  محاصرہ کرنے والے نہیں، بلکہ خود محصور تھے”۔

دہلی پر قبضے کی باقاعدہ جنگ شروع ہو چکی تھی۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


ساتھ لگی تصویر شاہی محل کے نوبت خانے کی ہے۔ محل میں اس جگہ پر کئے گئے 52 شہریوں کے قتلِ عام کا قصوروار بہادر شاہ ظفر کو ٹھہرایا گیا۔

Tuesday, August 1, 2023

عجیب ترین چوری کا واقعہ

 عجیب ترین چوری کا واقعہ...

 ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔ 

سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں ۔

اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔

 سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔

 شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا: آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔

سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی ، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔

سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔

 لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔ 

لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے، کثرت علم ، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔

لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں ۔


 سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ؛ شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لیے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔ 

 شیخ نے سنار سے کہا: کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔

 جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔


  اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے اور سنار رو دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ تو چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ۔سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔


 ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔

پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔

پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔


 آج ہمارے ملک کا بالکل یہی حال ہے، ہر چار سال بعد چور بھیس بدل کر ہمارے پاس آتا ہے اور لوٹ کر نکل لیتا ہے ۔

عربی ادب سے ماخوذ قصہ

(منقول)

میٹرک کے بعد کیا کریں؟

 _*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_

_*"میٹرک " کے بعد کیا کریں؟*_


     _*کون کون سے شعبے اور مواقع ھیں۔*_

--+++---+++---+++--

آجکل میٹرک کے امتحانات کے بعد بچے اور حتیٰ کہ والدین بھی مناسب رہنمائی اور علم نا ھونے کے باعث فیصلہ نہیں کر پاتے کہ وہ آگے بچوں کو کس شعبے کی تعلیم دلوائیں۔

 طالب علموں کی اکثریت کیرئیر کے انتخاب میں مدد نہ ہونے کی وجہ سے پریشان نظر آتی ہے۔ طلبہ کے سامنے بہت سارے راستے ہوتے ہیں اور انہیں مناسب سمت میں رہنمائی نہیں ملتی۔

بہت سارے طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو میٹرک کے بعد والے تمام شعبہ جات سے ہی نا واقف ہوتے ہیں۔


گروپ میں پچھلے دنوں سے کافی سوالات بھی اس بارے پوچھے گئے ھیں۔لہٰذا ذیل میں میٹرک کے بعدانٹرمیڈیٹ کی سطح کے مختلف شعبہ جات کامختصرتعارف پیش کیا جا رھا ھے، تاکہ طلبا کو اپنی مرضی کا شعبہ چننے میں آسانی ہوسکے۔

جو درج ذیل ہیں:


ایف ایس سی   

  ایف اے

آئی سی ایس

آئی کام/ڈی کام

اے لیول

  ڈی اے ای

پیرامیڈیکل کورسز


سائنس گروپ (FSc)


ایف ایس سی میں انگریزی، اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے مضامین لازمی طورپرپڑھائے جاتے ہیں اورباقی مضامین کا مختلف گروپوں میں ہم خودسے انتخاب کرتے ہیں۔

F.Sc

میں عموماً طلبا کادوبڑے شعبوں کی طرف رجحان پایاجاتاہے اوریہ بنیادی شعبے مندرجہ ذیل ہیں۔

 پری میڈیکل

 پری انجینئرنگ


1۔ پری میڈیکل گروپ

جیسا کہ نام سے ظاہرہے کہ اس گروپ میں جانے والے میڈیکل یا بائیولوجی کے دیگر ذیلی شعبہ جات کی طرف جاتے ہیں۔ایف ایس سی پری میڈیکل گروپ کے لازمی مضامین مندرجہ ذیل ہیں

فزکس – کیمسٹری – بیالوجی

طلبا کو میٹرک میں ان تینوں مضامین کابنیادی تعارف کروا دیا جاتا ہے اور ایف ایس سی پری میڈیکل اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے بعدان کے پاس ایم بی بی ایس کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔

ایف ایس سی پری میڈیکل کے بعد ایم بی بی ایس کے علاوہ دو اور شعبے بھی ہیں جن کو بیچلر آف ڈینٹل سرجری(BDS) اور ڈاکٹر آف ویٹرنری میڈیسن (DVM) کا نام دیاجاتا ہے۔

بی ڈی ایس کے طالب علم دانتوں کے سپیشلسٹ بنتے ہیں اورڈی وی ایم کے طالب علم جانوروں کے ڈاکٹربنتے ہیں۔ ان شعبہ جات کے علاوہ پری میڈیکل میں انٹرمیڈیٹ کے بعد چار سالہ بی ایس آنرز بھی ہوتا ہے جو بائیولوجی کے بیسیوں ذیلی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔جن میں زوالوجی، باٹنی، بائیو ٹیکنالوجی، ڈیری فارمنگ ایڈ فشریز، الائیڈ ہیلتھ سائنسز، ایگریکلچر، اینوائرنمینٹل سائنسز وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر آف فارمیسی اور ڈاکٹر آف فزیوتھراپی میں بیچلر کی ڈگری5سال پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ادویات سازی اور ان کے استعمال کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔


2۔ پری انجینئرنگ گروپ

پری انجینئرنگ میں ایف ایس سی کرنے کے بعد طالبعلم کے پاس کیرئیر بنانے کے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔

پری انجینئرنگ کے مضامین مندرجہ ذیل ہیں

 فزکس – کیمسٹری – ریاضی

ایف ایس سی پری انجینئرنگ کے متعدد شعبوں کے راستے آپ پر کھل جاتے ہیں۔ ان میں سول ، مکینیکل، الیکٹریکل، میکاٹرونکس، الیکٹریکل پاور، کیمیکل سافٹ ویئر انجینئرنگ وغیرہ سر فہرست ہیں۔

انجینئرنگ کے علاوہ بھی بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ کمپیوٹر سائنس، کمیسٹری، فزکس، میتھ میٹکس، ڈبل میتھ فزکس اور اس کے بے شمار راستے آپ کے سامنے ہوں گے۔ جبکہ آپ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے بعد آرٹس کے بھی تمام مضامین میں گریجوایشن کر سکتے ہیں۔


جنرل سائنس گروپ :

ایف ایس سی پری میڈیکل اورپری انجینئرنگ کے علاوہ جنرل سائنس گروپ میں بھی طلبا کی کثیرتعداد داخلہ لیتی ہے۔ ایسے طلبا جو جنرل سائنس گروپ میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے خواہش مند ہوں،وہ لازمی مضامین انگریزی، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان کے علاوہ مختلف اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے ہیں،جن میں ریاضی ، شماریات، اکنامکس،جغرافیہ وغیرہ شامل ہیں۔یہ طلبا آگے چل کر مختلف ڈگری کورسزمیں داخلہ لیتے ہیں۔


 آرٹس گروپ(FA):

ایف اے کے طلبا کولازمی مضامین کے علاوہ اسلامیات اختیاری،نفسیات،فزیکل ایجوکیشن، پنجابی، فارسی، عربی، اردو ادب اور سوکس وغیرہ کے مضامین میں کوئی سے تین مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایف اے کرنے کاکوئی فائدہ نہیں، یہ بات بالکل غلط ہے۔ درحقیقت انسان جس شعبے میں محنت کرے،اس میں اپنی پہچان بناسکتا ہے۔ بڑے بڑے اہم عہدوں پرفائزایف اے، بی اے کرنے والے لوگوں نے پاکستان میں سول سروسز (CSS) اور صوبائی انتظامی شعبہ جات(PMS) کے مقابلہ جاتی امتحانات پاس کرکے یہ عہدے حاصل کیے اورحکومت میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ایف اے کرنے کے بعدبی اے میں داخلہ لینے والے طلبا صحافت ،درس وتدریس اور مختلفانتظامی شعبہ جات سے منسلک ہوتے ہیں۔


کمپیوٹر سائنس گروپ(ICS):

”گلوبل ویلیج” ہونے کے تصورمیں کمپیوٹر کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کمپیوٹر کی تعلیم میں ابتدائی سطح پرآئی سی ایس کروایاجارہاہے جوکہ انٹرمیڈیٹ کی سطح کی تعلیم ہے۔ اس میں طلبا وطالبات لازمی مضامین کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ، ریاضی اور فزکس یا Statistics کے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔ آئی سی ایس کرنے والے طلبا اس کے بعد 3سالہ بی سی ایس (BCS)یا چار سالہ بی ایس سی ایس((BSCS، بی ایس آئی ٹی(BSIT) یا سافٹ ویئر انجینئرنگ میں داخلہ لیتے ہیں۔


 کامرس گروپ(I.Com):

کامرس یابزنس آج کے دور کااہم ترین شعبہ ہے۔بزنس کے مختلف اسرار و رموز اورداؤپیچ سکھلانے کے لئے انٹرمیڈیٹ کی سطح سے ہی آئی کام کے کورس کا اہتمام کیا گیاہے۔I.Comکے طلبا مختلف مضامین میں لازمی مضامین انگریزی ، اردو، اسلامیات،مطالعہ پاکستان کے علاوہ اختیاری مضامین ریاضی،اکاؤنٹس،اکنامکس، جغرافیہ اور بینکنگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ I.Comکے طلبا 2سالہ I.Com کے بعد BIT,BBIT,BBA, B.Com وغیرہ کے کورسزمیں داخلہ لیتے ہیں۔


 ڈپلومہ گروپ (D.A.E):

میٹرک کے بعدطلبا کے لیے صحیح کورس کاانتخاب بہت بڑا مسئلہ ہے اورسمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں پڑھا جائے اورکیا پڑھا جائے۔اس مسئلہ کاشکارطلبا کے لیے جوخاص طورپر انجینئرنگ کا رجحان رکھنے والے ہیں، انجینئرنگ میںتعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کاایک راستہ D.A.E بھی ہے۔ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ جو کہ میٹرک کے بعد(صرف سائنس سٹوڈنٹس کے لیے)3 سال پر محیط ہے اوراس کومکمل کرنے کے بعد یہ ڈپلومہ F.Sc کے برابر ہوتاہے۔

پاکستان میں ڈی۔اے ۔ای درج ذیل ٹیکنالوجیز میں کروایا جاتا ہے۔

 مکینیکل انجینئرنگ

 الیکٹریکل انجینئرنگ

 الیکٹرونکس انجینئرنگ

 سول انجینئرنگ

 آٹواینڈ فارم انجینئرنگ

 انفارمیشن ٹیکنالوجی

 شوگرٹیکنالوجی

فوڈٹیکنالوجی

 انسٹرومنٹ ٹیکنالوجی

 پٹرول اینڈ ڈیزل ٹیکنالوجی

 ریفریجریشن اینڈ ائیرکنڈیشنر

 کیمیکل ٹیکنالوجی

علاوہ ازیں اس طرح کی بہت سی ٹیکنالوجیز میں ڈی اے ای کروایا جارہاہے۔

ڈپلومہ کرنے کاایک فائدہ یہ ہے کہ یہ ٹیکنیکل کورس ہوتا ہے اورسرکاری سیکٹر میں ڈپلومہ کرنے کے بعد 14 سکیل تک نوکری مل جاتیہے۔D.A.E کرنے کے بعداگرمزیدپڑھائی کاارادہ ہو تو آپ اپنے متعلقہ شعبہ میںبی ایس انجینئرنگ اوربی ایس ٹیکنالوجی کرسکتے ہیں۔

D.A.E

اردواورانگلش دونوں زبانوں کے علاوہ گورنمنٹ اورپرائیویٹ دونوں قسم کے اداروں میں کروایا جاتا ہے۔ لیکن گورنمنٹ کالجز سے نکلنے والے ڈپلومہ ہولڈرز پرائیویٹ کی نسبت زیادہ قابل ہوتے ہیں اور ان کی قدربھی انڈسٹری میں زیادہ ہوتی ہے۔

کروانے والے چندبڑے اورمعیاری ادارے درج ذیل ہیں۔ D.A.E

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،ساہیوال

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،لاہورریلوے روڈ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،لاہوررائے ونڈ روڈ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،بہاولپور

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،ملتان

گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،فیصل آباد

 ٹیچر ٹریننگ کالج، فیصل آباد

گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول پور،ڈیرہ غازیخان

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ،بوریوالہ

 گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی، کمالیہ

 مکینکل اینڈالیکٹریکل کالج ،راولپنڈی

 G.C.Tرسول کالج ،منڈی بہاؤالدین

 گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ،سرگودھا

 سویڈش پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ،گجرات

 گورنمنٹ کالج آف ٹےکنالوجی ،سیالکوٹ

خیبر پختونخواہ کے ڈی اے ای کروانے والے اہم ادارہ جات

 AIMCSپشاور

 ASAایبٹ آباد سکول آف آرٹ

 احمد زئی پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ ،بنوں

 الفلاح انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کوہاٹ

ان کے علاوہ درجنوں ادارے خیبرپختونخواہ اور سندھ میں بھی ڈی اے ای کی تعلیم کے لیے موجود ہیں۔

بلوچستان کے ڈی اے ای کروانے والے اہم ادارہ جات۔

 پولی ٹیکنیک کالج کوئٹہ

 بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی


داخلہ کی شرائط

ڈی اے ای کے لیے سائنس کا طالب علم ہونا لازمی ہے اور تمام سرکاری کالجوں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیاجاتاہے ۔

ڈپلومہ بہت سے پرائیویٹ اداروں میں بھی کروائے جاتے ہیں لیکن ان میں سرکاری اداروں کی نسبت مشینری اور پریکٹیکل کے آلات بہت کم ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سرکاری کالجوں کے طلبا کوفیلڈ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

سرکاری کالجوں کی سالانہ فیسیں بھی کم ہوتی ہیں جبکہ ان کی نسبت پرائیویٹ اداروں کی فیسیں زیادہ ہوتی ہیں۔

ڈپلومہ کروانے والاایک بورڈ ہرصوبے میں موجود ہے۔ جیسے پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ،خیبر پختونخوا بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن ،بلوچستان بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن وغیرہ۔اسی طرح تمام صوبوں میں بورڈزیہ کام سرانجام دے رہے ہیں اورتمام پرائیویٹ اداروں کاان سے الحاق ہونا ضروری ہے۔


 پیرامیڈیکل کورسز:

پیرامیڈیکل کورسزسے مراد وہ کورسز ہیں جو ڈاکٹرز کے ساتھ بطورِمعاون کام کرنے والے اور ہسپتال کوچلانے والے افراد تیار کرنے کے لیے کروائے جاتے ہیں۔ ان میں دو طرح کے کورسز ہوتے ہیں۔ ایک تواسسٹنٹ اور دوسرے ٹیکنیشنزہوتے ہیں۔ 


اسسٹنٹ جیساکہ ڈسپنسرز، آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی، لیبارٹری اسسٹنٹ وغیرہ ،ان کا سکیل 6 ہوتاہے۔ صوبہ سندھ میں اسسٹنٹ کوسکیل 9اور ٹیکنیشنز کو سکیل 11 دیا جاتاہے۔

یہ کورسز عموماً میٹرک کے بعد جبکہ کچھ ایف ایس سی کے بعدہوتے ہیں۔ پیرامیڈیکل کورسزمیں اہلیت کے لیے میٹرک سائنس (بیالوجی) ہوناضروری ہے اور سائنس مضامین میں سے 50% نمبرز ہوناضروری ہیں۔

ان کورسزکے لیے بہت سے سرکاری ادارے اور ہسپتال موجودہیں۔جبکہ بہت سے پرائیویٹ ادارے بھی رجسٹرڈ ہیں۔ سرکاری اداروں میں داخلہ فیس تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اورٹریننگ بھی اچھی دی جاتی ہے جبکہ پرائیویٹ اداروں میں طلبا کوبھاری فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں جوکہ 30ہزار سے 60ہزار تک ہوتی ہیں۔


ویسے توبہت سے سرکاری ادارے اورہسپتال ہیں جن میں یہ کورسزکروائے جاتے ہیں لیکن پانچ ٹیکنیکل ادارے بالخصوص انہی کورسزکے لیے بنائے گئے ہیں۔ جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔

 پیرامیڈیکل سکول آف فیصل آباد

پیرامیڈیکل سکول آف ساہیوال

 پیرامیڈیکل سکول آف بہاولپور

پیرامیڈیکل سکول آف سیالکوٹ

پیرامیڈیکل سکول آف سرگودھا


ان کے علاوہ مختلف سرکاری ہسپتالوں میں بھی یہ کورسز کروائے جاتے ہیں۔جن میں لاہورمیوہسپتال، گنگا رام ہسپتال، سروسز ہسپتال، جنرل ہسپتال،سوشل سکیورٹی ہسپتال، شیخ زید ہسپتال، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اور پمز ہسپتال اسلام آباد وغیرہ شامل ہیں۔جوکورسز پیرامیڈیکس کے تحت کروائے جاتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔


 ڈسپنسر

آپریشن تھیٹرٹیکنالوجی

 لیب ٹیکنیشن

 ریڈیوگرافر

ڈینٹل ٹیکنیشن

 انستھیزیاٹیکنیشن

 ڈائیلیسز ٹیکنیشن

 انجیوگرافک ٹیکنیشن

 میڈٹیکنیشن

 اسسٹنٹ فارمسٹ


ان کورسزمیں سے چندایک کوچھوڑکر باقی سب کورسز شیخ زیدہسپتال (لاہور) میں کروائے جاتے ہیں جبکہ باقی ہسپتالوں میں ان میں سے کچھ کورسزکروائے جاتے ہیں۔ ڈسپنسر کورس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال لاہورمیں بھی کروایا جاتا ہے۔ 

جبکہ انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ میں بی ایس سی لیبارٹری اور میو ہسپتال میں ڈینٹل ٹیکنالوجسٹ جوبی ایس سی کے برابر ہوتاہے ،بھی کروایا جاتاہے۔ ان اداروں میں سے جو مجموعی طور پر سب سے اچھی کارکردگی دکھارہے ہیں،وہ پیرامیڈیکل سکول ساہیوال اوردوسرا شیخ زید ہسپتال لاہور ھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تحریر وترتیب!

عتیق الرحمن-


نوٹ: اس تحریر کی تیاری میں tribe Republic ویب سائیٹ پر موجود مواد کی مدد لی گئی ھے۔


مذکورہ انفارمیشن۔۔۔ مفاد عامہ کی خاطر شئیر کی گئی ھے

Sunday, July 30, 2023

مغلیہ زوال قسط نمبر 13: محلاتی سیاست

 _*مغلیہ زوال 13*_


_*محلاتی سیاست*_


شاہی محل میں پانچ شہزادے ۱۸۵۷ کے انقلاب کے پرجوش حمایتی تھے۔ انہیں اپنے مستقبل کی امید نہیں رہی تھی اور انہوں نے قسمت کے دئے گئے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ ان پانچ میں سے چار اس سے پہلے گمنام رہے تھے اور خاص صلاحیتوں کے مالک نہ تھے۔

تئیس سالہ مرزا خضر سلطان بہادر شاہ ظفر کے نویں بیٹے تھے اور حرم کی ایک خاتون رحیم بخش بائی سے تھے۔ ان کا ریکارڈ میں ایک واقعہ ملتا ہے جب انہوں نے اپنی بیوی کو پیٹا تھا اور اس وجہ سے بھرے دربار میں ظفر نے ان کی سختی سے سرزنش کی تھی اور دو تین تھپڑ لگائے تھے۔ خضر سلطان نے بادشاہ کے قدموں میں گر کر معافی مانگ تھی اور بادشاہ نے انہیں اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اچھے شاعر اور نشانہ باز تھے۔

دوسرے مرزا ابوبکر تھے جو ظفر کی جائز اولاد میں سب سے بڑے پوتے اور سابق ولی عہد مرزا فخرو کے بیٹے تھے۔ ان کا اس سے پہلے ریکارڈ میں صرف ایک ہی واقعہ ملتا ہے جس میں ایک حادثے میں ایک انگلی کٹ گئی تھی۔ اس انقلاب کے دوران ان کا طرزِ عمل اچھا نہیں رہا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین اور شراب کے چکر میں رہتے تھے اور نوکروں اور چوکیداروں کو پیٹتے تھے۔

تیسرے شہزادے مرزا بختاور شاہ تھے جو ظفر کے گیارہویں بیٹے تھے جو حرم کی خاتون ہنوا سے تھے۔ چوتھے مرزا عبداللہ تھے جو ظفر کے سب سے بڑے بیٹے کے بیٹے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن پانچویں شہزادے ان سب سے مختلف تھے اور انہوں نے جلد ہی خود کو سول ایڈمنسٹریشن کے سربراہ کے طور پر منوا لیا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے پانچویں بیٹے 29 سالہ مرزا مغل تھے۔ انقلاب سے پہلے بھی ان کا ذکر بہت ریکارڈز میں ملتا ہے۔ ان کے پاس قلعہ دار کا عہدہ تھا اور شاہی ملازمین کو تنخواہیں دینا اور کنٹرول کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ ان کی دو تصاویر بھی محفوظ ہیں۔ اس میں ہینڈسم اور ایتھلیٹک نوجوان، گہرا رنگ، بھوری آنکھیں اور سیاہ داڑھی۔ اگر ظفر کی شخصیت تحمل والی، ٹھہری ہوئی، جوش سے خالی اور فیصلہ لینے میں تاخیر والے معمر شخص کی نظر آتی ہے تو یہ اس کا بالکل ہی معکوس تھے۔ بے صبرے، غصے والے، دنیادار، پرجوش اور کچھ تلخ مزاج۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہ مئی کی صبح شہزادے بادشاہ کے پاس آئے اور ان سے فوج کی کمانڈ کی اہم عہدوں کی درخواست کی۔ پہلے یہ مسترد کر دی گئی۔ بادشاہ نے کہا کہ “تم لوگ کرو گے کیا؟ تمہیں اس کا تجربہ نہیں” لیکن اصرار کرنے پر پندرہ مئی کو یہ قبول کر لی گئی۔ سپاہیوں کی حمایت کے بعد مرزا مغل کو انقلابی فوج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میوٹینی پیپرز میں بڑی حیران کن بات ملتی ہے جو تاریخ سے غائب ہے، وہ مرزا مغل اور ان کا فعال کردار ہے۔ ہزاروں احکامات ہیں جو ان کی طرف سے جاری ہوئے۔ پیپرز کی کلکشن 60 میں صرف انہی کے جاری کردہ احکامات ہیں جن کی تعداد 831 ہے۔

تاریخ میں، خواہ کسی کی بھی لکھی ہو، ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ مغل شہزادے سست اور نکمے تھے۔ مرزا مغل کو ایک بے کار ارسٹوکریٹ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی ریکارڈ اس تاثر کی نفی کرتا ہے۔ مرزا مغل انقلابیوں میں سب سے زیادہ محنتی اور متحرک نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دہلی میں کسی حد تک تنظیم اور باقاعدہ انتظامیہ مہیا کی۔ اگرچہ کہ بحران کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں، باغی سپاہیوں اور فری لانس جہادیوں کو متحد فورس بنانے اور ان کے اختلافات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن اس ناکامی کی وجہ محنت اور کوشش کی کمی نہیں تھی۔

سپاہیوں کو شہریوں سے دور رکھنے، ان کے لئے قائم کردہ ملٹری کیمپ، پولیس کو بازاروں میں لوٹ مار کو کنٹرول کرنے کی ہدایات، سپاہیوں کو تنخواہ کی ادائیگی کے وعدے، پیسے اکٹھا کرنے کی کوشش، سپاہیوں اور دہلی والوں کو خوراک کی سپلائی بحال کرنے کی کوشش، انفرادی لوگوں کی عرضیوں پر ایکشن۔  کدالوں، بیلچوں، کلہاڑیوں اور ریت کے تھیلوں کا بندوبست کر کے ان سے خندق بنانے اور دفاعی کام کروانا، ملٹری کے لئے سخت ڈسپلن کے احکامات ۔۔ جیسا کہ گھر کی تلاشی بغیر پرمٹ کے نہیں کی جا سکتی۔ گوجر قبائل سے مذاکرات تا کہ شہر کے باہر راستے محفوظ بنائے جا سکیں۔ بہادر شاہ ظفر کی تصویر والے سکے جاری کرنے والی ٹکسال کا قیام اور اپنے والد کی حمایت پر لوگوں کو اکٹھا کرنا اور اپنے بھائیوں کو کنٹرول میں رکھنا۔ یہ ان جاری کردہ کاغذات میں دکھائی دیتا ہے۔

مرزا مغل نے ایک خط ہندوستان کے نوابوں اور راجاوٗں کے لئے لکھا کہ وہ اس انقلاب میں ان سے وفاداری دکھائیں۔ ستی کی رسم پر انگریز سرکار کی لگائی جانے والی پابندی، مذہب تبدیل کرنے پر عاق کر دینے پر پابندی، جیلوں میں کرسچن مبلغین کی موجودگی کا ذکر الگ الگ خاص طور پر کیا گیا۔ “انگلش ہم سب کے مذاہب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اپنا کام جاری رکھنے دیا گیا تو وہ ہمارے دھرم ختم کر دیں گے۔ یہ ہندو اور مسلمان کے برابر دشمن ہیں اور ہمیں اکٹھا ہو کر ان کا صفایا کرنا ہے۔ اس طرح ہم اپنی جان اور اپنا ایمان بچا سکیں گے”۔

مورخین کو لال قلعے سے جاری کردہ ایک اور دستاویز ملی جو ہر لحاظ سے ماڈرن دستاویز کہی جا سکتی ہے، جس میں معاشی اور سماجی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمینداروں پر ٹیکس، سرکاری ملازمین کے مسائل، فوجی بھرتیاں اور برٹش درآمدات کی وجہ سے مقامی ہنرمندوں کی بیروزگاری کا۔ مذہبی، سیکولر، سیاسی، عوامی ۔۔۔ مرزا مغل کسی مشاق سیاستدان کی طرح ہر طریقے سے سپورٹ جیتنے کی کوشش کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکہ زینت محل اور ان کے بیٹے مرزا جوان بخت نے دوسرا راستہ چنا۔ زینت محل اپنے شوہر کے انقلابی افواج کی حمایت کے فیصلے سے نالاں تھیں۔ ان سے شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بادشاہ نے کسی اہم بات پر ان کے مشورے کے خلاف عمل کیا تھا۔ ملکہ نے شاید اندازہ لگا لیا تھا کہ برٹش واپس آ جائیں گے اور سپاہیوں کو شکست ہو گی۔ اور اگر اس وقت برٹش سے وفاداری دکھائی جائے تو ان کے بیٹے کو اگلے بادشاہ بنایا جا سکے گا۔

محل میں اب دو دھڑے بن گئے تھے۔ پرو برٹش سائیڈ پر زینت محل کے علاوہ ظفر کے وزیرِ اعظم حکیم احسن اللہ، سمدھی الہی بخش، متعمدِ خاص محبوب علی خان بھی تھے۔

ظفر ان کے درمیان ایک مشکل صورتحال میں تھے۔ سپاہیوں کے خطرے سے بھی واقف تھے۔ ان کے طور طریقوں سے بھی خوش نہیں تھے اور لوٹ مار سے بھی نالاں تھے لیکن دوسری طرف، انہیں معلوم تھا کہ تیمور کے گھرانے کو بچانے کا موقع یہی تھا۔ یہ انقلاب ان کے خاندان کی بادشاہت بچا سکتا تھا جس کی وہ کوشش بیس برسوں سے کرتے رہے تھے لیکن اس سے پہلے تک امید چھوڑ چکے تھے۔

اور پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے بہادر شاہ ظفر کے لئے واپسی کا کوئی بھی راستہ بند کر دیا۔ یہ انقلابیوں کی طرف سے شاہی محل میں حفاظت میں رکھے گئے 52 شہریوں کا کیا گیا بہیمانہ قتل تھا۔

(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


ساتھ لگی تصویر مرزا مغل کی ہے جن کا اس جنگ میں کلیدی کردار رہا۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 12: آزادی کے بعد

 _*مغلیہ زوال 12*_


_*آزادی کے بعد*_


انقلاب کا مقابلہ کرنے سب سے موثر جواب لاہور اور پشاور سے آیا۔ لاہور میں جان لارنس ایک اچھے منتظم تھے اور پشاور کے جان نکلسن اور ہربرٹ ایڈورڈز سخت گیر فوجی۔ انہوں نے فوری جواب کا منصوبہ بنایا۔ “ہمیں فوری حرکت میں آنا ہو گا۔ اب وقت ان سپاہیوں کے شکوے دور کرنے کا نہیں رہا۔ اب انہیں کچل دینے کا وقت ہے۔ اور جتنا جلد یہ خون بہایا جائے گا، اتنا ہی کم خون بہانا پڑے گا”۔ ایڈورڈز نے یہ پیغام لارنس کو بھیجا۔ چار روز میں جہلم میں یہ عسکری کالم تیار تھا جو سبک رفتاری سے کسی بھی سمت بغاوت کچلنے جا سکتا تھا۔


نکلسن ایک سخت مزاج افسر تھے اور راولپنڈی کے کمشنر کے طور پر انہوں نے اس کا سرِعام مظاہرہ دکھایا بھی تھا۔ ایک بدنام ڈاکو کو جب انہوں نے پکڑا تھا تو اس کا سر اتار کر اپنے میز پر سجایا تھا۔ وہ سخت محنت کرنے میں بھی اور کروانے میں بھی شہرت رکھتے تھے۔ مقامی آبادی میں کچھ لوگوں میں بہت پسند بھی کئے جاتے تھے لیکن خود مقامی لوگوں کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ “دنیا میں ہندوستانیوں سے زیادہ گندی اور ظالم ایک ہی قوم ہے اور وہ افغان ہیں”۔ اٹک پر قبضے میں ان کی شجاعت کی داستانوں کا چرچا تھا۔ وہ کسی کو قیدی بنانے کے قائل نہیں تھے۔

ان کے ارادے زیادہ خون آشام تھے جو انہوں نے دوسرے برطانوی افسروں سے اس وقت شئیر نہیں کئے۔ دہلی کے قتلِ عام کے بعد پشاور کے کمانڈروں نے یہ بل پیش کیا۔ “برٹش خواتین اور بچوں کو دہلی میں مارنے والوں کے لئے پھانسی کی سزا ناکافی ہے۔ ان کو لٹا کر کوڑے مارے جائیں، مصلوب کیا جائے اور جلا دیا جائے۔ لٹکا دینا انصاف نہیں۔ ان پر بدترین تشدد کیا جانا چاہیے تا کہ ہمارے ضمیر سے بوجھ اتر سکے”۔  


اسی طبیعت کے ایک اور افسر ولیم ہوڈسن تھے جو انٹیلی جنس کے بے رحم چیف تھے۔ انہوں نے فوری طور پر جاسوسی کے لئے مولوی رجب علی کو دہلی روانہ کیا۔ رجب کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ وہ ہیڈ منشی کا کام کرتے رہے تھے اور پنجاب میں پولیٹیکل ایجنٹ بھی رہ چکے تھے اور ہنری لارنس کے ساتھ کام کرتے تھے۔


مولوی رجب علی جلد دہلی پہنچے اور مخبروں اور جاسوسوں کا بڑا اور موثر نیٹ ورک بنانے میں کامیاب رہے۔ اس نیٹورک میں ہندو بنئے بھی تھے اور مغل اشرافیہ کے لوگ بھی۔ برٹش راج پسند کرنے والے عام شہری بھی اور انقلابیوں کو ناپسند کرنے والے بھی۔ رجب علی کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنے نیٹ ورک میں اہم ترین انقلابی کمانڈروں کو بھی بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ہریانہ ریجیمنٹ کے بریگیڈ میجر غوری شنکر سوکل جن سے برٹش فوج تک حکمت عملی مسلسل پہنچتی رہی اور دوسرے سپاہی جو نہ صرف معلومات پہنچاتے رہے بلکہ وقت ملنے پر انقلابیوں کے پروگرام میں خلل ڈالتے رہے۔ رجب علی جلد ہی ملکہ عالیہ زینت محل سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بہادر شاہ ظفر کے وزیرِ اعظم حکیم احسن اللہ خان کو ساتھ ملا لیا اور شاہی محل میں پرو برٹش دھڑے کے سربراہ، مرزا فخرو کے سسر اور بہادر شاہ ظفر کے سمدھی مرزا الٰہی بخش کو۔ اس انیٹیلی جنس نیٹ ورک کو قائم کر لینے کی کامیابی جنگ میں بہت اہم رہی۔ ان کے بھیجے گئے نوٹ فقیروں اور سادھووٗں کے بھیس میں ایجنٹ لے کر جاتے تھے اور ان میں سے ہزاروں رقعے ابھی بھی نیشنل آرکائیو آف انڈیا میں محفوظ ہیں۔ یہ بہت چھوٹی لکھائی میں جوتوں یا کپڑوں میں اڑس لئے جاتے تھے۔ ان میں شہر کے حالات، توپوں کی پوزیشن، اسلحے کی صورتحال، سپاہیوں یونٹس کے درمیان اختلافات، اندرونی مسائل بتائے جاتے تھے۔ 


جاسوسوں سے آنے والی انفارمیشن نہ قابلِ اعتبار ہوتی تھی اور نہ ایکوریٹ۔ اکثر انفارمیشن کے دام ادا کرنے والوں کو وہ بتایا جاتا تھا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ لیکن اگلے مہینوں میں اتنی انفارمیشن برٹش تک پہنچتی رہی کہ اس نے اس لڑائی کو طے کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس کے مقابلے میں انقلابیوں کے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا کہ انہیں اپنے مخالفین کے بارے میں کچھ بھی پتا لگتا۔


جون کے پہلے ہفتے میں جی ٹی روڈ سے جنرل ہنری برنارڈ کی قیادت میں تین ہزار فوجی جی ٹی روڈ پر دلی کی طرف رواں دواں تھے۔ ان کے ساتھ پچاس توپیں اور فیلڈ گن تھیں۔ 


ہوڈسن نے پٹھان اور پنجابی رضاکاروں کو کامیابی سے بھرتی کر لیا تھا جو بغاوت کر کے چھوڑ جانے والے ہندوستانی فوجیوں کی جگہ لے چکے تھے۔ نکلسن اور ہوڈسن ملکر پوری قوت سے برٹش غصہ بہادر شاہ کے نئے آزاد ہونے والے دہلی پر اگلنے والے تھے۔ مزید رضاکاروں کی بھرتی جاری تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نئے آزاد ہونے والے دہلی میں حالات اچھے نہ تھے۔ لاء اینڈ آرڈر باقی نہیں رہا تھا۔ لوٹ مار جاری تھی۔ تاوان کے لئے لوگوں کو پکڑا جاتا تھے۔ نئے آنے والے سپاہیوں کی رہائش کی جگہ نہیں تھی۔ بہت سوں نے محل کے دالانوں میں بسیرا جمایا تھا۔ کئی نے لوگوں کی کوٹھیوں میں۔ سپاہیوں اور دہلی والوں کے درمیان چھڑپیں ہوتی تھیں۔ جو کرسچن شہر سے نکلنے سے رہ گئے تھے، اگلے دنوں میں انہیں مارا جاتا رہا۔ دہلی کالج کے پرنسپل فرانسس ٹیلر کی باری بارہ مئی کو آئی تھی۔ لیکن شہر میں کہیں سے متحد نظر نہیں آتا تھا۔ کئی لوگوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر پرانی دشمنیاں نپٹانا شروع کر دی تھیں۔ 


محفوظ میوٹنیی پیپرز میں عام شہریوں کی عرضداشتیں نظر آتی ہیں جو بادشاہ سے بچاوٗ کی درخواست دے رہے تھے۔ ان میں خاص طور پر شہر کے عام لوگ تھے جن کے پاس حفاظت کے لئے مسلح گارڈ یا حویلیاں یا اونچی دیواریں نہیں تھیں۔ غریب لوگ، خاص طور پر کشن گنج اور نظام الدین میں ان جرائم سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ پہاڑ گنج اور جے سنگھ پورہ کے لوگ شاہی محل دہائی دینے پہنچے تھے کہ “تلنگے ہماری چارپائیاں، برتن اور آگ جلانے والی لکڑیاں تک اٹھا کر لے گئے ہیں”۔ ایک اور وفد تاجروں کا آیا تھا کہ ان کے سٹاک اٹھا لئے گئے ہیں۔ 


شہر سے باہر صورتحال زیادہ بری تھی۔ برٹش پولیس سسٹم نے امن قائم کیا تھا، وہ ختم ہو گیا تھا۔ گوجر اور میواتی قبائل کے نیم خانہ بدوش لوگوں کو لوٹنے کے لئے پھر رہے تھے۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر نے الور کے راجا کو مدد طلب کرنے جو ہرکارے بھیجے، وہ گجروں کے ہاتھوں اپنے گھوڑے، پیسے اور کپڑے تک گنوا کر واپس پہنچے تھے۔ بادشاہ کے خط کے پرزے کر کے ان کے ہاتھ میں پکڑا دئے گئے تھے۔


ان گھومتے پھرتے لٹیروں نے دہلی کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برٹش دہلی کا محاصرہ نہیں کر سکے تھے جبکہ لٹیروں نے عملی طور پر شہر کی سپلائی کاٹ دی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہادر شاہ ظفر نے اپنا چاندی کا تخت نکلوا کر قلعی کروا کر دیوانِ خاص میں لگوایا تھا۔ یہ تخت پندرہ سال سے سٹور میں پڑا تھا۔ ہاتھی پر سوار امن و امان قائم کرنے کی اپیل کرنے ہات شہر میں نکلے۔ شہزادہ مرزا مغل خود تمام پولیس سٹیشنوں پر گئے اور حکم جاری کروایا کہ جو کوئی لوٹ مار کرتے پکڑا گیا، اس کے ناک اور کان کاٹ دئے جائیں گے”۔


اس شام کو عام دربار لگایا اور خوبصورت زبان میں فارسی روبکاری جاری کی جس نے سپاہیوں کے تمام صوبیداروں کو کہا گیا کہ وہ اپنے آدمیوں کو کنٹرول کریں۔ افسروں نے احترام سے یہ سنا لیکن ایک گھنٹے کے اندر اندر دربار میں ہنگامہ برپا تھا۔ سپاہی شکایت کر رہے تھے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور دکاندار اپنے دکانیں کھول نہیں رہے۔ بادشاہ ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں۔


جلد ہی یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ بہادر شاہ ظفر جنگ کے لیڈر کے طور پر موزوں نہیں۔ بیاسی سال کی عمر میں ان کے پاس وہ توانائی، ولولہ، جوش و جذبہ نہیں تھا جو انقلاب کے منہ زور شیر پر سواری کے لئے درکار ہوتا ہے۔ 


 وہ اپنے دیوانِ عام کو سپاہیوں کی رہائش بنانے سے اور انہیں محل کے زنانے میں تاک جھانک کرنے سے بھی نہیں روک سک رہے تھے۔ انہوں نے سپاہیوں کے گھوڑوں کو اپنے پسندیدہ باغوں سے ہٹوانے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہیں رہی تھی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تیرہ مئی کو ظفر نے شہر میں امن و امان لانے کے لئے پھر کوشش کی۔ شہر میں کئی جگہ لگائی گئی آگ سلگ رہی تھی۔ کوتوال سے دو سے تین سو سقوں کو انہیں بجھانے کا حکم جاری کیا۔ روز دہلی میں تین سے چار سو نئے سپاہی پہنچ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہندوستان بھر سے سات سے آٹھ ہزار سپاہی دہلی میں جمع ہو گئے تھے۔ ظہیر دہلوی لکھتے ہیں،
“سپاہی آسائش میں رہ رہے تھے، بہت سے بھنگ پیتے رہتے، لڈو پیڑے، پوریاں، کچوریاں اور مٹھائیاں کھاتے اور چین کی نیند سوتے۔ دہلی ان کے پاس تھا اور جو چاہے کرتے۔ اندھیر نگری، چوپٹ راج تھا۔ عام لوگ اس سب سے جلد ہی تنگ آ چکے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ خدا اس سے نجات دلوائے اور حکومت واپس بحال ہو۔ باغی سپاہی اور شہر کے بدمعاش روز لوٹ مار کرتے امیر ہو رہے تھے۔ کچھ کے پاس تو لوٹا مال کہیں رکھنے کی جگہ بھی نہیں رہی تھی۔ عام لوگ فاقہ زدگی کا شکار تھے۔ روزگار ختم ہو گیا تھا اور کاروبار بند پڑے تھے”۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بہادر شاہ ظفر کو ظلِ الٰہی، شہنشاہِ عالم، خلفیہ وقت، بادشاہوں کا بادشاہ، سلطانوں کا سلطان کہا جاتا۔ صادق الاخبار کے مطابق، “ہم خدا کے شکرگزار ہیں کہ اس نے ظالموں سے نجات دلوائی اور ظلِ الٰہی کو بحال کروایا”۔ اس لاقانونیت اور انارکی کے پسِ منظر میں مغل دربار نے، اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ، ایک مرکزی اور سیاسی اہمیت کا کردار سنبھالا۔ 1739 کے بعد سے، جب نادر شاہ نے دہلی کو اجاڑا تھا، پہلی بار روزانہ دربار لگنے لگا۔ 


لیکن شاہی خاندان خود منقسم تھا۔ 


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ساتھ لگی تصویر 1770 میں دہلی لال قلعے کی ہے۔

مغلیہ زوال قسط نمبر 11: مکڑی کا جال

 _*مغلیہ زوال 11*_


_*مکڑی کا جال*_


دہلی سے شمال میں کیپٹن رابرٹ ٹٹلر دہلی میں ہو جانے والے واقعات سے بے خبر اپنے 200 سپاہیوں کو کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ فوج میں کچھ گڑبڑ تو چل رہی ہے لیکن کس حد تک؟ اس کا علم نہیں تھا۔ دہلی میں اور دہلی کے باہر برٹش راج تیزی سے ختم ہو رہا تھا۔ ٹٹلر کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے سپاہی میرٹھ والوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس روز اسلحہ ڈپو میں ہر کوئی معمول سے زیادہ اسلحہ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے اور کیپٹن گارڈنر نے نوٹ کیا کہ سپاہی عمارت سے دور کھڑے ہیں۔ جب انہیں قریب آنے کو کہا تھا سپاہیوں نے جواب دیا کہ انہیں دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ جب انہیں سختی سے آرڈر دیا تو ایک سپاہی نے جواب دیا کہ آپ کی سرکار ختم ہو گئی ہے۔ برٹش راج کا دور گزر گیا ہے۔ پھر سب نے ملکر نعرے لگانے شروع کر دئے، “پرتھوی راج کی جے ہو”۔ سپاہیوں کی بڑی تعداد انہیں چھوڑ کر اور اسلحہ لے کر چلی گئی۔ ان کے ساتھ چند درجن فوجی رہ گئے جو زیادہ عمر کے تھے اور افغانستان کی جنگ رابرٹ ٹٹلر کے ساتھ اکٹھے لڑی تھی۔  

مغلیہ زوال قسط نمبر 11


یہ کئی جگہ پر دہرایا جا رہا تھا۔ کئی یونٹس میں سپاہی افسروں کو سلیوٹ کرنے کے بعد الوداع کر کے جا رہے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


افطار کے وقت دہلی کی گلیاں سنسان ہو گئیں۔ ظہیر دہلوی جو شاہی محل سے واپس آ رہے تھے، کہتے ہیں، “ شہر میں خاموشی تھی اور عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ گھروں اور حویلیوں کے دروازے مقفل تھے۔ روشنی کسی جگہ پر نہیں تھی۔ سڑک کے لالٹین ٹوٹے ہوئے اور ان کے شیشے بکھرے پڑے تھے۔ چاقو بنانے والوں، حلوائی اور بزازوں کی دکانیں لوٹ لی گئی تھیں۔ ایک جگہ پر ایک شخص قریب المرگ کراہ رہا تھا۔ اسے تلواروں کے تین گھاوٗ لگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ مجھے تین لوگ نظر آئے جنہوں نے ایک دھوبی کو روکا ہوا تھا۔ وہ اس کے سامان کی تلاشی لے رہے تھے کہ کوئی قیمتی شے مل جائے۔ دھوبی نے انہیں بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک فرنگی کا گھر ہے۔ جلدی پہنچو، مال کوئی اور نہ لے جائے اور یوں دھوبی نے ان سے جان چھڑوائی”۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بارہ مئی کو دہلی برٹش سے تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ 1803 کو برٹش نے مرہٹوں کو شکست دی تھی، تب سے دہلی برٹش کنٹرول میں تھا۔ ایک روز میں یہ ختم ہو گیا تھا۔ 


بہادر شاہ ظفر نے نہ یہ انقلاب پلان کیا تھا اور نہ ہی یہ سب ان کے وہم و گمان میں تھا اور نہ ہی یہ سپاہی ان کے کنٹرول میں تھے اور نہ ہی ان کے پرتشدد طریقوں سے اتفاق کرتے تھے۔ لیکن وہ پوری طرح سے ان کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔ موہن لال کاشمیری لکھتے ہیں۔

 “باغی اب شہر کے اور محل کے بھی مالک تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو زور دیا کہ وہ شہر کا دورہ کریں تا کہ سب کا اعتماد بحال ہو۔ بادشاہ نے پہلی بار یہ دیکھا تھا کہ تربیت یافتہ سپاہی ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے شہریوں کو دیکھا جو انہیں دیکھنے امڈ آئے تھے۔ اداس اور معمول کے چہروں کے ساتھ نہیں، نعرے لگاتے ہوئے۔ یہ تبدیلی پہلے روز شہر میں اکثریت کو پسند آئی تھی۔ بادشاہ نے برٹش ناکامیوں کی خبریں سنیں۔ انہوں نے جھوٹی خبریں بھی سنیں کہ برٹش فوج فارس میں پھنس چکی ہے۔ اور یہ کہ یورپ میں سیاسی حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور ہندستان میں کوئی کمک نہیں آ سکے گی۔ انہیں بتایا گیا کہ ممبئی اور دکن میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ بہادر شاہ ظفر اب یقین کر چکے تھے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں عظیم تیموری خاندان کے تاج اور سلطنت کی بحالی ان کے ہاتھوں ہونا ہے”۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


برٹش انڈیا میں پہلے بھی بغاوتیں ہوئی تھیں۔ سب سے بڑی ویلور میں 1806 میں۔ کئی جگہوں پر مسلح مزاحمتیں ہوئی تھیں۔ لیکن تمام برٹش دور میں برٹش سپریمیسی کو اتنا بڑا چیلنج کبھی نہیں آیا۔


کمپنی کے تربیت یافتہ فوجی اور مغلوں کی تعظیم ۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ دینے کے فیصلے نے اس کو انیسویں صدی میں کسی بھی مغربی یورپی ملک کو درپیش سب سے بڑے امتحان میں بدل دیا تھا۔ لیکن بادشاہ کے لئے جو سوال فوری تھا کہ کیا وہ واقعی کنٹرول میں ہیں؟ یا انہوں نے صرف اپنی ڈوریاں ہلانے والے بدلے ہیں؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دہلی میں انقلاب کے دن دو ٹیلی گراف آپریٹروں، برینڈش اور پلکنگٹن نے دفتر بند کیا اور دہلی چھوڑ کر میرٹھ کی راہ لی لیکن جانے سے پہلے انہوں نے دو پیغامات بھجوائے۔ ان کا اوریجنل اس وقت لاہور میں پنجاب آرکائیو میں محفوظ ہے۔ پہلا “کینٹونمنٹ محاصرے کی حالت میں” کے عنوان سے ہے جو دوپہر کو بھیجا گیا۔ اس میں لکھا ہے۔

“میرٹھ کی تھرڈ لائٹ انفینٹری کے باغیوں نے میرٹھ سے رابطہ کاٹ دیا ہے۔ ان بلوائیوں کی تعداد نامعلوم ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب بتائی جا رہے ہے۔ یہ کشتیوں کے پل پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ 54ویں نارتھ انفینٹری کو ان سے لڑنے بھیجا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ کئی افسر مارے جا چکے ہیں، کئی زخمی ہیں۔ شہر میں نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے۔ کچھ فوجی بھجوائے گئے ہیں لیکن ابھی حالات غیریقینی ہیں”


دوسرا پیغام اس سے پہلے بھیجا گیا جب یہ دونوں دفتر چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔

“میرٹھ کے سپاہیوں نے سارے بنگلے جلا دئے ہیں۔ وہ صبح یہاں پہنچے تھے۔ ہم یہاں سے اب جانے والے ہیں۔ چارلس ٹوڈ (جو پیغام بھیجنے والوں کے افسر تھے) کو مار دیا گیا ہے۔ وہ صبح نکلے تھے اور واپس نہیں آئے”۔


یہ ٹیلی گراف کی نئی ٹیکنالوجی کا کارنامہ تھا۔ وہ، جسے غالب اس دور کا معجزہ کہتے تھے۔ یہ پیغام انبالہ بھیجا گیا اور چند گھنٹوں میں لاہور، پشاور اور شملہ تک پہنچ چکا تھا۔   


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کمانڈر انچیف جنرل جارج اینسن کو یہ پیغام ملا تو وہ شملہ میں تھے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی ویسے ہی جیسے گولیوں پر چکنائی کے معاملے کو نہیں دی تھی۔ چار دن بعد انبالہ پہنچے تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت ہیضے کی وبا بھی پھیلی ہوئی تھی۔ جب 27 مئی کو برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف جرنل اینسن کا انتقال ہیضے کی وجہ سے ہوا تو انقلاب کی یہ لہر بڑھ چکی تھی۔ نوشہرہ، انبالہ، لدھیانہ، فیروزپور، نصیر آباد، ہانسی، مراد آباد، علی گڑھ، آگرہ، مین پوری، ایتاوا، اور آگرہ کے بھی مشرق سے سپاہیوں کے بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں۔ 


نقشے میں یہ مقامات دہلی کے گرد دائرے کی شکل میں نظر آتے تھے۔ جو ہندوستان میں دور دراز تک پھیلے تھے۔ بہادر شاہ اور ان کی مغلیہ سلطنت اب امید کا مرکز تھے۔ بہت سے افراد، گروہ اور بہت سی وجوہات۔ مسلمان بھی، ہندو بھی۔ شمالی انڈیا میں سپاہی اپنے یونٹ کو چھوڑ کر سیدھا دہلی کا رخ کرتے۔ کئی جگہ پرتشدد طریقے سے، قتل و غارت کرتے اور کئی بار افسروں سے معذرت کرتے ہوئے۔ 


کمانڈر رچرڈ بارٹنر نے نقشے پر یہ پیٹرن دیکھتے ہوئے کہا کہ “بغاوت کا یہ نقشہ مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ اس کا مرکز دہلی ہے اور اس کے بیچوں بیچ پر جو مکڑا بیٹھا ہے، وہ بہادر شاہ ظفر ہے”۔


(جاری ہے)


تحریر: وہارا امباکر


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ لگی تصویر میں بغاوت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ 

ہلکے نیلے میں وہ علاقے جہاں پر مقامی حکمران ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقاعدہ طور پر مدد کی 

گاڑھے نیلے میں وہ علاقے جہاں کے حکمران کمپنی کے وفادار رہے۔

سیاہ میں وہ علاقے جہاں کے حکمرانوں نے بغاوت میں حصہ لیا۔ 

سبز میں وہ، جہاں کے حکمران غیرجانبدار تھے۔ 

بھورے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی لیکن بغاوت میں عملداری ختم ہو گئی۔

پیلے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی اور یہاں پر موثر بغاوت نہیں ہوئی۔

قلعہ دراوڑ یا ڈیراور؟ صحرائے چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا

 _*🔮 دلچسپ معلومات 🔮*_



_*🏜قلعہ دراوڑ یا ڈیراور؟ صحرائے چولستان کا وہ قلعہ جو آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا😳*_


_*بشکریہ بی بی سی اردو*_


*برصغیر میں وہ* سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنا شجرہ نسب عرب کے عباسی خلفا سے چلنے کے دعویدار ہیں۔


بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔


 18ویں صدی کے اوائل سے قریباً ڈھائی صدیوں تک یہاں کے حکمران رہنے والے عباسی خاندان نے ایک طرف دارالخلافہ بہاولپور میں پُرآسائش محلات اور باغات تعمیر کیے تو دوسری طرف کالج، ہسپتال، سٹیڈیم، تفریحی مقامات اور لائبریریاں بھی بنوائیں۔


ان کی تعمیرات میں کئی آج بھی بہاولپور شہر اور اس کے باہر موجود ہیں۔ یہ تاریخ کے اُن اوراق کی مانند ہیں جن سے کئی کہانیاں اور یادیں عبارت ہیں۔


ایسا ہی ایک ورق پلٹیں تو آپ بہاولپور شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور صحرائے چولستان میں قلعہ ڈیراور پہنچتے ہیں۔ سڑک پکی مگر تنگ ہے ،اس لیے مسافت لگ بھگ دو گھنٹے کی ہے۔


عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی، جو اب اس قلعے کے نگہبان بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام قلعہ ڈیراور ہے اور اپنی کتاب میں انھوں نے یہی نام استعمال کیا ہے۔


آپ سفر صبح سویرے شروع کریں۔ موسم سرما کی نکھری دھوپ میں صحرائے چولستان کا الگ ہی حسن ہے۔ قلعہ ڈیراور یوں تو کسی بھی دوسرے قلعے کی طرح ہی ہے لیکن میلوں دور ہی سے یہ آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔

  

اونچی دیواریں اور ان میں نصب ٹھوس لوہے سے بنا اس قدر اونچا اور چوڑا مرکزی دروازہ کہ ہاتھی اس میں سے با آسانی گزر جائے۔ ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ منفرد دکھائی دیتا ہے۔


اس کے بالکل سامنے دلی کی مسجد کی طرز پر بنی ایک قدیم مسجد بھی ہے جو اس کے حُسن کو چار چاند لگا دیتی ہے۔


_*ڈیراور آپ کو صدیوں پیچھے لے جائے گا*_


تاریخی عمارتوں کی مانند قلعہ ڈیراور میں بھی یہ خصوصیت موجود ہے کہ وقت کا پہیہ روک دے اور آپ کو پیچھے لے جائے اور واپس لوٹنے میں آپ کا پورا دن گزر سکتا ہے۔


قلعے کی جانب بڑھیں تو مسجد کے عقب میں بنے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے آپ پیچ کھاتی اس کشادہ گزرگاہ پر پہنچتے ہیں جو آپ کو قلعے کے اندر لے کر جاتی ہے۔ اسے کبھی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہو گا۔


قلعے کے اندر داخل ہونے سے قبل پہلا سوال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس کے باہر بسنے والے لوگ کون ہوں گے، کیسے رہتے تھے اور ان کا کیا ہوا؟


قلعہ ڈیراور آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کی آزاد ریاستِ بہاولپور کے آخری حاکم نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے صاحبزادہ قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

انھوں نے قلعہ کی تاریخ پر کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ ہم نے ان کے سامنے یہی سوال رکھا۔ قمرالزماں عباسی کے مطابق قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک دریا گزرتا تھا جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھا۔


_*’ہندو، سکھ، مسلمان سب میں میل ملاپ تھا‘*_


قلعے کے باہر آباد لوگوں میں مسلمان بھی تھے، ہندو اور سکھ بھی مگر ان میں ایسا میل ملاپ تھا کہ مذہب کی تفریق کا معلوم ہی نہیں پڑتا تھا۔ مسلمان اور ہندو سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔


قمرالزماں کے مطابق ہندو عہد میں ڈیراور کی آبادی بقدرِ ضرورت فوجی سپاہیوں تک محدود رہی۔ عباسی فرمانرواؤں کے دور میں اس میں اضافہ ہوا۔


’جب تک اس کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل رہی قلعہ کے باہر بازار اور امرا و اراکینِ سلطنت کے مکانات واقع تھے۔‘


زیادہ تر آبادی قلعے کے مغربی جانب تھی جس میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر تھے۔ قلعے کے مشرقی جانب بارانی پانی کے جمع کرنے کے لیے تالاب اور کنویں بنائے گئے تھے۔


_*اندر اور باہر دو مختلف مناظر*_


مرکزی دراوزے سے قلعے کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے جہاں ایک توپ کھڑی ہے۔ سامنے جو عمارت نظر آتی ہے وہ غالباً بارہ دری تھی جو محل کے بیرونی حصے میں واقع تھی۔


اس کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دری میں کھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کی ٹائیلوں اور پتھر پر کشیدہ کاری کے ذریعے آرائش کی گئی تھی۔ انتہائی بوسیدگی کی حالت میں بھی اس کے آثار باقی ہیں۔


اندر موجود تعمیرات کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آپ کو مایوسی ہو سکتی ہے۔ یہ قلعہ کی باہر سے ظاہر شان و شوکت کے بالکل مختلف ہے۔

قلعہ کی نگرانی پر شاہی خاندان کی طرف سے لوگ معمور کیے گئے ہیں۔

 سیاحت کے لیے آنے والے افراد سے وہ معمولی سے فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ مختلف علاقوں سے آئے سیاح ان بوسیدہ در و دیوار کے ساتھ وقت بیتاتے ہیں۔


آپ کی طرح وہ بھی سوچتے ہوں گے کہ قلعہ میں موجود کون سی عمارت کیا تھی اور یہاں کے مکین کون تھے؟


_*یہ سرنگوں کی کیا کہانی ہے؟*_


مرکزی محل کے مشرقی سمت فوجیوں کے لیے بیرکیں اور گودام وغیرہ بنائے گئے تھے۔ یہیں ایک جیل بھی نظر آتی ہے۔


مغربی سمت ایک چبوترے سے سیڑھیاں نیچے اترتی ہیں۔ اس کے مقام کے علاوہ بھی قلعے کی عمارتوں میں ایسے کئی مقامات موجود تھے جہاں زیرِ زمین سرنگوں کو راستے جاتے تھے۔ اب وہ مٹی سے بند ہو چکے ہیں شاید آپ نہ دیکھ پائیں۔


کہا جاتا ہے کہ قلعے میں زیرِ زمین سرنگوں کا جال موجود تھا۔ اس میں ریل کی پٹڑیاں کچھ عرصہ پہلے تک دیکھی بھی جا سکتی تھیں۔ خیال ہے کہ ان کے ذریعے قلعے کے اندر اور باہر خفیہ رہ کر سفر کیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کوئی سرنگ غالباً دلی تک بھی جاتی تھی۔

مگر صاحب قمرالزماں کے مطابق اس کی تصدیق مشکل ہے۔


’اس بارے میں ابھی کسی کو علم نہیں۔ نہ کبھی کسی نے کھدائی کروائی اور نہ کسی نے دیکھا۔ خود نواب صاحب نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘


40 کلومیٹر طویل انسانی قطار سے اینٹوں کی آمد

بارہ دری سے گزرتے ہوئے آپ محل کے اس حصے کی جانب جائیں گے جو غالباً بیگمات یا خاندان کے دیگر افراد کے لیے وقف تھا۔ اس کا دروازہ قلعہ کی مشرقی سمت میں واقع ہے۔


رہائش گاہوں تک پہنچنے سے قبل ایک چبوترا نما عمارت نظر آتی ہے اس کے ایک طرف برآمدوں کے پیچھے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان برآمدوں کے ستونوں سے اینٹیں اس حد تک نکل چکی ہیں کہ یوں لگتا ہے کسی بھی وقت زمین بوس ہو جائیں گے۔


جو اینٹیں قلعہ میں ہر جانب لاکھوں کی تعداد میں بکھری نظر آتی ہیں، قمرالزماں کے مطابق انھیں بہت مشکل سے یہاں تک پہنچایا گیا تھا۔

قلعے پر قبضے کے وقت اس کی بیرونی دیواریں کچی تھیں۔ ان کی اینٹوں سے چنوائی عباسی دور میں کروائی گئی۔


قمرالزماں کے مطابق اس میں استعمال ہونے والی انیٹیں 40 کلو میٹر دور احمد پور سے انسانی ہاتھوں کی زنجیر کے ذریعے یہاں تک پہنچائی جاتی تھیں۔


’ایک ہاتھ سے دوسرے تک دے دے کر اینٹیں یہاں تک پہنچتی تھیں اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی تھیں۔‘


_*کیا ڈیراور میں نواب رہائش پذیر ہوئے؟*_


قلعہ کے طرزِ تعمیر واضع ہے کہ نوابین یہاں سکونت اختیار کیے رہے۔ قمرالزمان کے مطابق بہاولپور منتقل ہونے سے قبل تین نواب قلعہ ڈیراور میں رہائش پذیر رہے ہیں۔


انھوں نے آخری بار قلعہ کو سنہ 1955 میں نواب سر صادق محمد عباسی کے دور میں آباد دیکھا ہے جب قلعہ کے اندر 250 فوجی محافظ جبکہ باہر سو کے قریب سویلین رہتے تھے۔


’قلعے کے باہر چھاؤنی تھی۔ فوج کی خاکی وردی اور ٹوپی ہوتی تھی۔ نواب صاحب جمعہ کو ڈیراور آتے تھے، چار دیگیں چاول کی پکائی جاتی تھیں اور لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔‘


قلعہ کے اندر نواب صاحب کے آباؤ اجداد کے مزارات میں تین قبریں ہیں۔ وہ ان پر حاضری دیتے تھے۔ جن دنوں وہ آیا کرتے تھے ڈیراور کی آبادی 600 گھرانوں کے لگ بھگ تھی، اب 250 کے قریب رہ چکی ہے۔


_*دو منزلہ چبوترا کس کا تھا؟*_


محل کے وسط میں ایک چبوترا نما کمرہ آپ کی نظر سے چھپ نہیں سکتا کیونکہ اس کی دو منزلیں ہیں۔


قمرالزماں کے مطابق یہ نواب صاحب کی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ وہ خود اوپری منزل میں رہتے تھے اور نیچے فوجی تعینات ہوتے تھے۔


محل کے ایک حصے میں وہ مقام موجود ہے جہاں ہر نئے بننے والے نواب کی دستار بندی کی جاتی تھی۔


قمرالزماں کے مطابق روایت یہ ہے کہ اس موقع پر نئے نواب کی تاج پوشی اسی رسی سے کی جاتی ہے جو نواب بہاول خاں کو کسی بزرگ نے اس وقت دی تھی جب وہ ڈیراور کو فتح کرنے آ رہے تھے۔


_*قلعہ ڈیراور تھا کس کا؟*_


عباسی خاندان کے پاس قلعہ ڈیراور قریباً تین دہائیوں سے ہے۔ تو اس سے پہلے یہ کس کے پاس تھا اور کس نے تعمیر کروایا؟ اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں۔


تاہم قمرالزماں کے مطابق جب عباسی داؤد پوتروں نے چولستان سے بہاولپور میں اقتدار سنبھالا تو ڈیراور سمیت چولستان کے قلعے جیسلمیر کے راجہ کے تسلط میں تھے۔


یہ سنسان جگہ پر واقع تھا اور اس کے چاروں اطراف 18 میل تک آبادی نہیں تھی۔ اس تک پہنچنا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ احمد پور شرقیہ سے اونٹوں اور گدھوں پر پھل اور سبزی ترکاری لائی جاتی تھی جو تیسرے روز پہنچتی تھی۔


تاہم اپنے مقام وقوع کے اعتبار سے یہ قلعہ عباسیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ تاہم جب بہاولپور میں محلات تعمیر ہو گئے تو وہ وہاں منتقل ہو گئے۔ یہاں سے نکل کر آپ ان محلات میں سے کم از کم نور محل تک جا سکتے ہیں۔


اسے دیکھ آپ کو ڈیراور قلعہ کے اندر کی زندگی کے بارے میں مزید بہتر جان کاری ہو گی۔