☘ *گھرانے کے افراد ایک دوسرے کے رفیق بنیں، رقیب نہ بنیں _!!*
گزشتہ تحریر میں بیان ہوا کہ رہبر معظم کے فرمودات کی روشنی میں 4 امور باعث بنتے ہیں کہ جن سے گھر میں سکون و آرامش برپا کی جاسکتی ہے، ان 4 امور میں سے ایک امر یہ ہے کہ گھر کے افراد ایک دوسرے کے دوست بنیں، گھر کا بڑا سب کو اپنی اپنی آراء بیان کرنے کا موقع دے، اپنی مرضی کسی پر مت تھوپے، شوہر اپنی بیویوں کو کنیزیں نہ سمجھیں، باپ اپنی اولاد کو ملکیت نہ سمجھے. روایات میں آیا ہے کہ آپ اپنی پسند گھر کے افراد پر مت ٹھونسیں، اکثر گھر کے بعض افراد کو شوق ہوتا ہے کہ فقط انکی بات گھر میں چلے اور انکی بات مانی جاۓ جبکہ ایسے شخص کو روایت میں منافق قرار دیا گیا ہے جو اپنی پسند کو دوسروں پر ٹھونس دے، بہت سے موارد ہیں مثلا شادی بیاہ کے موقع پر یا بچوں کے رشتے کو لے کر بے جا پسند کو کسی پر مسلط نہیں کرسکتے، یہ تو پھر بھی شادی کا مسئلہ ہے حتی ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ بِشَهْوَةِ أَهْلِهِ وَ الْمُنَافِقُ يَأْكُلُ أَهْلُهُ بِشَهْوَتِهِ.
رسول خدا صلی الله علیه وآله فرماتے ہیں مومن اپنے گھر والوں کی میل و رغبت کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور منافق اپنی میل و رغبت کا کھانا اپنے گھر والوں پر ٹھونستا ہے.
حتی آپ اپنی پسند کا کھانا بھی گھر کے دوسرے افراد پر نہیں ٹھونس سکتے، اگر آپ کو ایک چیز پسند ہے اور آپ کہیں کہ یہ چیز گھر میں بنے گی جبکہ دوسروں کی پسند ناپسند کا خیال نہیں، ظاہر ہے سب کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے ہمیں دوسروں کی پسند کا خیال رکھنا ہوگا، گھر میں جب تک سب کا احترام اور انکی آراء محترم شمار نہ ہوں گھر میں سکون برپا نہیں کیا جاسکتا، حتی چھوٹا بچہ بھی جب تک اسے احترام نہ دیا جائے عزیز نہیں ہوسکتا اور ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتا ہے، میاں بیوی کا رشتہ بھی ایسا ہی ہے. رہبر معظم ارشاد فرماتے ہیں: " افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ "الرجال قوامون علی النساء" اس آیت قرآنی میں مردوں کو عورتوں پر مسلط ہونے کا جواز فراہم کیا گیا ہے، جو کچھ ان سے کروانا ہے یا منوانا ہے وہ سب مرد کروا سکتے ہیں، گویا وہ مالک ہیں اور عورت انکی ملکیت. جبکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے امور کی سرپرستی مرد کے ہاتھ میں ہے وہ جاۓ کماۓ اور گھر کو چلاۓ، گھر کی معیشت گھر کا خرچ اور ضروریات کو پورا کرے، اس آیت کا یہ مطلب.
منبع:
١. قرآن کریم.
٢. الکافی، ج٤، ص١٢.
٣. آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم
No comments:
Post a Comment