Wednesday, February 5, 2020

کرونا وائرس اور اس کی تفصیل اور احتیاطی تدابیر| Corona Virus| Urdu Pegham 786| اردو پیغام


کرونا وائرس اور اس کی تفصیل  اور احتیاطی تدابیر ۔


کرونا وائرس اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔
کراچی: چین میں کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بن سکتا ہے اور اب تک دو درجن سے زائد افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

کرونا وائرس کیا ہے؟


 کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اسے خوردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآتے ہیں جوعموما تاج (کراؤن) جیسی شکل بناتے ہیں۔

اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔
 اب بھی زیادہ تر جان دار مثلاً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھی گئی ہیں لیکن یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر 13) سامنے آچکی ہیں جنہیں اپنی آسانی کے لیے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا وائرس کی 13 اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز وائرس کو nCoV 2019 کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ کرونا وائرس کی ایک بالکل نئی قسم ہے۔

کرونا وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟


 واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کے لیے تین ہلاکت خیز وائرسوں میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول، سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ، دوسرا مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) مشرقِ وسطیٰ سے اور اب تیسرا 2019 nCoV بھی چین کے شہر ووہان سے پھیلا ہے۔

 ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ء میں سارس وائرس سے چین میں 774 افراد ہلاک اور 8000 متاثر ہوئے تھے۔ مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔

نئے کرونا وائرس کی علامت بتایئے؟


 چین میں لوگوں نے سردی لگنے، بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری علامات سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔

نئے کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج کیسے ممکن ہے؟          


 چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) تیار کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین سامنے نہیں آسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ء میں نیا وائرس سامنے آیا ہے اور ماہرین اس کی ظاہری علامات سے ہی اس کا علاج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا دعویٰ ہے کہ وائرس سے متاثر ہونے والے 4 فیصد افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے متاثرہ 25 فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔

کیا کرونا وائرس سانپ اور چمگاڈر سے پھیلا؟


 دوروز قبل چینی سائنس دانوں نے جینیاتی تحقیق کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا وائرس کی کوئی نئی قسم سانپ سے پھیلی ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دیگر ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔

 دیگر ممالک کے ماہرین کا اصرار ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے پھیلا ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیلا تھا۔ چینی ماہرین کا اصرار ہے کہ سانپ اور چمگاڈروں کا فضلہ ہوا میں پھیل کر سائنس کے ذریعے انسانوں میں اس وائرس کی وجہ بن سکتا ہے لیکن دوسرے ماہرین اس سے متفق نہیں۔

کیا یہ وائرس عالمگیر وبا بن سکتا ہے؟


 ممتاز ماہرِ حیوانیات اور مصنف، ڈاکٹر صلاح الدین قادری نے بتایا کہ کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں:
اول: وائرس کی نئی قسم ہو
دوم: حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صلاحیت
سوم: انسان میں مرض پیدا کرنے کی صلاحیت
چہارم: انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد
 اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے آچکی ہیں۔ ڈاکٹر سید صلاح الدین قادری نے بتایا کہ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک پھیل گئی تھی۔
کرونا وائرس پاکستان آسکتا ہے؟
 اس سوال کا فوری جواب ہاں میں ہے۔ واضح رہے کہ چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر شہروں میں پھیلا ہے


منقول-ایکسپریس اخبار 

No comments:

Post a Comment