Saturday, August 29, 2020

جاپانیوں کو تازہ مچھلیاں بہت پسند ہیں

جاپانیوں کو تازہ مچھلیاں بہت پسند ہیں ، لیکن جاپان کے قریب کے پانیوں میں کئی دہائیوں سے زیادہ مچھلی نہیں پکڑی جاتی
 لہذا جاپانی آبادی کو مچھلی  کھلانے کے لئے ، ماہی گیر کشتیاں بڑی ہوتی گئیں اور پہلے سے کہیں زیادہ دور جانے لگیں -
 ماہی گیر جتنا دور گئے ، مچھلیوں کو پکڑ کر واپس لانے میں اتنا ہی زیادہ وقت لگنے لگا۔ اس طرح ساحل تک باسی مچھلی پہنچنےلگی -
 مچھلی تازہ نہیں تھی اور جاپانیوں کو ذائقہ پسند نہیں تھا۔ اس مسئلے کو حل  کرنے کے لئے ، فشینگ کمپنیوں نے اپنی کشتیوں پر فریزر لگائے۔
 وہ مچھلی کو پکڑ کر سمندر میں فریز کردیتے۔ فریزرز کی وجہ سے کشتیوں کو مزید دور جانے اور زیادہ دیر تک سمندر میں رہنے کا موقع ملا ۔
 تاہم ، جاپانیوں کو فروزن مچھلی کا ذائقہ بھی پسند نہ آیا ۔
 فروزن مچھلی کم قیمت پڑتی تھی۔
 تو ، ماہی گیر کمپنیوں نے فش ٹینک لگائے۔ وہ مچھلی کو پکڑ لیتے اور ٹینکوں میں بھر کر زندہ لے آتے -
 مگر تھوڑے وقت کے بعد ، مچھلیاں سست ہو جاتیں ۔ وہ زندہ تو رہتیں لیکن مدہوش ہو جاتیں -
 بدقسمتی سے ، جاپانیوں کو اب بھی اس مچھلی کا ذائقہ پسند نہ آیا چونکہ مچھلی کئی دن تک حرکت نہیں کرتی تھی ،
 اس لئے تازہ مچھلی والا ذائقہ کھو جاتا -
 ماہی گیری کی صنعت کو ایک آنے والے بحران کا سامنا کرنا پڑا!
 لیکن اب اس بحران پر قابو پالیا گیا ہے اور وہ اس ملک میں ایک اہم ترین تجارت بن کر ابھرا ہے۔
 جاپانی فشینگ کمپنیوں نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا؟
 وہ جاپان میں تازہ ذائقے والی مچھلی کیسے حاصل کرتے ہیں؟
 مچھلی کے ذائقے کو تازہ رکھنے کے لئے جاپانی ماہی گیر کمپنیوں نے اس مچھلی کو ٹینکوں میں ڈال دیا۔
 لیکن اب وہ ہر ٹینک میں ایک چھوٹی سی شارک کو شامل رکھتے ہیں۔
 شارک کچھ مچھلیاں کھا جاتی ہے ، لیکن زیادہ تر مچھلیاں انتہائی رواں دواں متحرک حالت میں رہتی ہیں ۔
 مچھلیوں کو شارک سے خطرہ رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ متحرک رہتی ہیں اور صحت مند حالت میں مارکیٹ تک پہنچتی ہیں ۔
 وہ اچھی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں -
 خطرے کا سامنا انھیں تازہ دم رکھتا ہے!
 انسانی فطرت بھی مچھلی سے مختلف نہیں ہے ۔
 ایل رون ہبارڈ نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں مشاہدہ کیا:
 "انسان صرف ایک مشکل ماحول کی موجودگی میں عجیب طور پر کافی گرو اور ترقی کرتا ہے۔
 "جارج برنارڈ شا نے کہا:
 "اطمینان موت ہے.. !"
 اگر آپ مستقل طور پر چیلنجوں کو فتح کر رہے ہیں تو ، آپ خوش ہیں۔ آپ کے  چیلنجز آپ کو متحرک رکھتے ہیں۔ وہ آپ کو بھرپور زندہ رکھیں گے... !
 _ آپ بھی اپنے ٹینک میں شارک رکھیں اور دیکھیں کہ آپ واقعی ترقی کرکے کہاں تک جا سکتے ہیں... !
 : اگر آپ صحت مند ، کم عمر اور متحرک نظر آتے ہیں تو ، یقینی طور پر آپ کے گھر میں بیوی موجود ہے۔
 جی ہاں شارک کو اپنی زندگی میں موجود رکھئیے
 اور اگر زیادہ متحرک زیادہ جوان زیادہ خوشحال رہنا چاہتے ہیں تو پھر شارک کی تعداد بڑھا لیں۔۔۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو

👈 ‎*"عورت کی عزت"* ‏👉اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں

👈 *"عورت کی عزت"* 👉

اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے ہوئے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کر دی۔
ان نوجوانوں کو نماز پڑھتا دیکھ کچھ نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ ان کے پاس پہنچا اور نماز 
مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔


میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ آو دیکھتے ہیں کہ ان
 کے درمیان کیا بات ہوتی ہے۔
مرحوم فرماتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی وہاں 
چلے گئے اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔


نماز ختم ہوتے ہی ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر جماعت کروانے والے نوجوان سے پوچھا کہ کیا 
تمھیں انگلش آتی ہے؟ 

تو نوجوان نے کہا کہ جی ہاں آتی ہے۔

تو لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی یہ کیا عمل کیا؟ 

تو نوجوان نے بتایا کہ ہم نے اپنے رب کی عبادت کی ہے۔

تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی؟ 

تو نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم روز دن میں پانچ بار یہ عمل کرتے ہیں، تو لڑکی نے حیرت سے پوچھا کہ پھر باقی کام کیسے کرتے ہو تم؟ 

تو اس نوجوان نے اسے مکمل طریقہ سے پوری بات سمجھائی۔

بات ختم ہونے کے بعد لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا، یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے۔


یہ سُن کر وہ لڑکی زمین پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے ہوئے بولی کہ اے کاش! یورپ کا نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنی خوش ہوتی۔


پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو۔
یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔


اشفاق مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ"بانو! آج یہ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتی۔"


بے شک عزت اور سر بلندی اسلام میں ہی ہے .
یا اللہ ہمیں اپنی خاص رحمت سے دین اسلام پر صحیح طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام پر استقامت عطا فرما.
*آمین ثم آمین یا رب العالمین*

میری وفات کے بعد... موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔

Excellent Article 
میری وفات کے بعد... 
موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔

اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔

دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔

لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔
رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی. 
میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔

عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔

 بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:
 ” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“
مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور........... میری زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔

مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسے ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جا پہنچا۔
بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی. یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔

لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی تھی۔ کراچی سے چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔
بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کر دی گئی۔

 شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی لوگ آ گئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی موجود تھے۔

لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر
آ گئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔
پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا۔

یہ کیفیت ختم ہوئی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہو چکے ہیں تمہیں فوت ہوئے ۔
پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی:
 ” ہم تمہیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں دنیا میں کسی کو نظر نہیں آؤ گے. گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو،
پھر اگر تم نے کہا تو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آ جانا “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور ہاں کر دی۔

پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔

 اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ماڈل کی خریدی تھی دھچکا سا لگا۔
گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟
بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں تھیں تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟

دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟
کتابیں تھیں نہ الماریاں
رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔

مجھے فارسی کی قیمتی ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا. 

داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا. سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی. 

میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا؟
اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے سُوت سے بُنے ہوئے چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے وہ غائب تھے۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہو گئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟
ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟
میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں؟ 
مگر... میں بول سکتا تھا نہ وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو اس طویل گفتگو سے میں سمجھا یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے بضد تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی. 

میری بیوی کو میری یہ نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔
گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہو گی۔

اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔
یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔
میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے خریدی تھی. اچھا... تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے. 
میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھتا رہا۔

ایک ایک بیٹے بیٹی کے گھر جا کر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا وہ بھی سرسری سا۔
ہاں...
زینب، میری نواسی اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی:
” اماں... یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھےنا جب میں چھوٹی سی تھی اسے پھینکنا نہیں“
ماں نے جواب میں کہا:
” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کردینا“

میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔
اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں بھی الماری  سے ہٹا دی تھیں۔

ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔
میری قبر کا برا حال تھا. گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔

ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زرہ بھر بھی نہیں. 
بیوی یاد کر لیتی تھی تاہم بچے پوتے نواسے پوتیاں سب مجھے بھول چکے تھے ۔

ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔

دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر. پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی تھیں اور آئے جا رہی تھیں. 

ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آ چکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔

فرض کیجئے،
میں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں بھی ویلکم نہ کہا جاتا. بچے پریشان ہو جاتے ، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں میری گنجائش کہیں نہ تھی.

ہو سکتا تھا کہ بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آ کر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مکان بک چکا،
میں تنہا تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے.
دوست تھوڑے بہت باقی بچے تھے۔
وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل طے کر رہے تھے. میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔
جدید بستی میں پرانے مقبرے کی طرح. 

میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں.
فرشتہ مسکرایا۔ اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا “

*نو ( 9 ) ، اور دس ( 10 ) محرم کے روزے کی فضیلت*

*نو ( 9 ) ، اور دس ( 10 ) محرم کے روزے کی فضیلت*

*نیکیاں کما لیں, نو اور دس محرم کا روزہ ضرور رکھیں, جزاکم اللہ خیرا*

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے ۔۔ 🔷 
( صحیح مسلم : 1163 )
 🌹 سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ یوم عاشورہ ( دس محرم ) کے روزہ سے ایک سال پہلے کے گناہ معاف کر دے گا ۔۔ 🔶 ( صحیح مسلم : 1162 ) 

🌹 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ ( دس محرم ) کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول یہ تو وہ دن ہے کہ یہود و نصاریٰ اس کی تعظیم کرتے ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو میں نویں ( محرم اور دسویں محرم ) کا ( بھی ) روزہ رکھوں گا ۔۔۔ 🔷 ( صحیح مسلم : 1134 ) 

🌹 مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : تم نو ( 9 ) محرم اور دس ( 10 ) محرم کا روزہ رکھو ، اور یہودیوں کی مخالفت کرو ۔۔ ♦️
 ( مصنف عبدالرزاق : حدیث نمبر ، 7839 ، و اسنادہ صحیح ) 

🔴🔵⬅️ امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : امام شافعی رحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کا قول بھی اسی حدیث کے موافق ہے ۔۔ یعنی نو محرم اور دس محرم کا روزہ رکھنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔!🌹

Thursday, August 27, 2020

Story of Uncle Ibrahim and a Jew Boy named Jaad.

Story of Uncle Ibrahim and a Jew Boy named Jaad. 
یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے
کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔
اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو "انکل ابراہیم" کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔
انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ، آئسکریم اور گولیاں، ٹافیاں دستیاب تھیں ...!

اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک سات سالہ بچہ (جاد) تھا۔ جاد تقریباً روزانہ ہی انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔
دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد نے کبھی بھی ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولی تھی
ایک بار جاد دکان سے جاتے ہوئے چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا۔ انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا :
" جاد ...! آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ...؟ "
انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔
جاد آج تک یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔
جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا کہ :
" آپ اگر مجھے معاف کر دیں، تو آئندہ میں کبھی بھی چوری نہیں کروں گا "

مگر انکل ابراہیم نے جاد سے کہا : 
"اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا
ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا۔"
اور بالآخر اسی بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا ...!

وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔
بلکہ ایسا ہو گیا کہ انکل ابراہیم ہی جاد کیلئے باپ، ماں اور دوست کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔
جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا
ایسے میں انکل میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے کہ کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو۔
جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے دو صفحے پڑھتے، جاد کو مسئلے کا حل بتاتے، جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر کو چلا جاتا ...!

اور اسی طرح ایک کے بعد ایک کرتے سترہ سال گزر گئے۔
سترہ سال کے بعد جب جاد چوبیس سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابرہیم بھی اس حساب سے سڑسٹھ سال کے ہوچکا تھے
داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ...!

اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی
اُن کی وصیت تھی کہ :
" اس کے مرنے کے بعد یہ صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ...! "

جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا
کیونکہ انکل ہی تو اسکے غمگسار اور مونس تھے۔
جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ...!

جاد، انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔
مگر ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا، "آج انکل ہوتے تو وہ اُسے کتاب کھول کر دو صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا" جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسو نکل آئے ...!

"کیوں ناں آج میں خود کوشش کروں ...!" 
کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا
لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ :
" مجھے اس میں سے دو صفحے پڑھ کر سناؤ "

مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔
واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا :
" یہ کیسی کتاب ہے ...؟"

تیونسی نے کہا :
" یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے ...! "

جاد نے پوچھا :
" مسلمان کیسے بنتے ہیں ...؟ "

تیونسی نے کہا :
" کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں ...! "

جاد نے کہا : 
" تو پھر سن لو میں کہہ رہا ہوں أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ ان محمد رسول الله ...! "

جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے "جاد اللہ القرآنی" کا نام پسند کیا۔
نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، دین کو سمجھا اور اور اس کی تبلیغ شروع کردی ...!

یورپ میں اس کے ہاتھ پر چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔
ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط کیے ہوئے تھے۔
ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:
" ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة "
" اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ...! "

جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اس کیلئے وصیت ہو۔ اور اسی وقت جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی، اور ساتھ ہی جاد اللہ نے یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا، سوڈان، یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا
دعوت حق کیلئے ہر مشکل اور پرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ...!

جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے تیس سال گزار دیئے۔
 سن 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھر کر محض چون سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملے ...!

جاد اللہ کی محنت کے ثمرات ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک دو سال بعد ان کی ماں نے ستر سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ...!

جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتے تھے کہ انکل ابراہیم نے اس کے سترہ سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو۔
مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کیئے بغیر چارہ نہ تھا  ...!

 آپ کے سامنے اس واقعے کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ، کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار " انکل_ابراہیم "جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم جاد ہم سے متاثر ہو کر " جاد_اللہ_القرآنی " بن کر میرے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے ...

اللہ تعالٰی مجھ گناہ گار و سیاہ کار سمیت ہم سب مسلمانان عالم پر بےحد رحم فرمائے اور عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے ...!
 چلتے، چلتے  ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ....

Wednesday, August 26, 2020

Govt. of the Punjab Launches Baldia Online App

*پنجاب حکومت کا بڑا اقدام*

پنجاب حکومت نے بلدیہ ایپ جاری کردی۔ آپ گھر بیٹھے بچوں کی پیدائش کا اندراج ، فیملی ممبر کی وفات کا اندارج ، شادی یا طلاق کا اندراج کراسکتے ہیں اور یونین کونسل کی سرٹیفائیڈ کاپی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ پنجاب حکومت کا ایک بڑا اہم کارنامہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یونین کونسلز کے سیکرٹریز کی بلیک میلنگ اور رشوت سے بچنے کیلئے ایپ کا استعمال کریں اور گھر بیٹھے اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں۔ پلے سٹور سے ایپ انسٹال کریں اور اکاؤنٹ بنا کر ایپ استعمال کریں۔


*_APP LINK_*👇

.................................
Baldia Online App Installation